اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

فجر صادق كا وقت

سوال

فجر صادق معلوم كرنے كے طريقے كيا ہيں ؟
ميں فجر صادق تلاش كرنے كى كوشش كرتا ہوں تا كہ مجھے اور ميرے دوست و احباب كو سحرى كا وقت ختم ہونے اور نماز كا وقت شروع ہونے كا علم ہو سكے، كيونكہ ميں چائنہ ميں رہائش پذير ہوں، اور يہاں مسلمان انٹر نيٹ كے نظام اوقات پر اعتماد كرتے ہيں، ليكن اس ميں انتہائى باريك بينى نہيں پائى جاتى جس كى وجہ سے وہ وقت شروع ہونے سے قبل ہى نماز فجر ادا كر ليتے ہيں، ليكن اگر ميں اوقات كو صحيح طور پر ضبط نہ كر سكوں ( كيونكہ جب اندھيرا چلا جاتا اور روشنى شروع ہوتى ہے تو يہ سحرى ختم ہونے كا وقت مقرر كرتا ہوں ) تو كيا ايسا كرنے ميں ميرے ذمہ كوئى گناہ ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنى عبادت ميں حق و صحيح طريقہ تلاش كرنے كى كوشش پر جزائے خير عطا فرمائے، اور ہمارى يہ بھى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو اپنے فضل و كرم سے اور زيادہ توفيق سے نوازے، اور آپ كو علم و تعليم كى حرص اور محبت اور زيادہ كرے.

آپ يہ علم ميں ركھيں كہ فجر كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

فجر كاذب:

اس سے نماز كا وقت شروع نہيں ہوتا، اور نہ ہى اس فجر كاذب طلوع ہونے سے روزہ ركھنے والے كے ليے كھانا پينا اور جماع وغيرہ ممنوع ہوتا ہے.

دوسرى قسم:

فجر صادق:

يہ وہ فجر ہے جس كے طلوع ہونے سے نماز كا وقت شروع ہو جاتا ہے، اور روزہ ركھنے والے كے ليے كھانا پينا اور جماع منع ہو جاتا ہے، اور درج ذيل آيت ميں بھى اس سے مراد يہى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم كھاتے پيتے رہو يہاں تك كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے البقرۃ ( 187 ).

اور فجر كى ان دونوں قسموں كے مابين فرق كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كئى ايك احاديث ميں بيان فرمايا ہے، بعض احاديث ميں تو اوصاف كے اعتبار سے فرق كيا گيا ہے، اور بعض دوسرى احاديث ميں احكام كے اعتبار سے فرق كيا گيا ہے، اور بعض احاديث ميں اوصاف اور احكام دونوں كو جمع كر كے فرق كيا گيا ہے.

ان احاديث كى تفصيل آپ سوال نبر ( 26763 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

اور ان دونوں فجروں ميں فرق كى وضاحت صحابہ كرام اور تابعين عظام رحمہ اللہ كى كلام ميں بھى موجود ہے، اور ان كے بعد آنے والے اہل علم آئمہ كرام كى كلام ميں بھى وضاحت موجود ہے.

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور عبد الرزاق كہتے ہيں: ہميں ابن جريج نے عطاء رحمہ اللہ سے خبر دى، وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" فجر كى دو قسميں ہيں: وہ فجر جو آسمان ميں بلند ہوتى ہے، نہ تو يہ آدمى كے ليے كچھ حرام كرتى ہے، اور نہ ہى ہى حلال، ليكن جو فجر پہاڑوں كى چوٹيوں پر ظاہر ہوتى ہے وہ كھانا پينا حرام كرتى ہے.

عطاء رحمہ اللہ كہتے ہيں: ليكن اگر وہ آسمان ميں بلندى كى جانب چڑھے ـ يعنى آسمان ميں لمبائى كى شكل ميں پھيلے ـ تو اس سے نہ تو روزہ دار كے ليے كھانا پينا حرام ہوتا ہے، اور نہ ہى نماز كا وقت شروع، اور نہ ہى اس سے حج فوت ہوگا، ليكن جب پہاڑوں كى چوٹيوں پر پھيل جائے تو روزہ دار كے ليے كھانا پينا حرام ہو جائيگا، اور حج فوت ہو جائيگا.

ابن عباس اور عطاء كى اس روايت كى سند صحيح ہے، اور كئى ايك سلف رحمہ اللہ سے بھى اسى طرح مروى ہے " .

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 516 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور بالجملہ يہ ہے كہ: صبح كا وقت بالاجماع دوسرى فجر طلوع ہونے سے شروع ہوتا ہے، اور اوقات والى احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں، اور يہ فجر افقى كناروں كى جانب پھيلتى ہے، اور اسے فجر صادق كا نام ديا جاتا ہے كيونكہ اس نے آپ كو صبح كى خبر دى اور متنبہ كيا ہے، اور صبح وہ ہے جو سفيدى اور سرخى دونوں كو جمع كرے، اور اسى ليے جس شخص كى جلد سرخى اور سفيدى ہو اسے " اصبح " كہتے ہيں.

اور رہى پہلى فجر: تو يہ سفيدى ہے جو چوڑائى كى بجائے آسمان كى طرف لمبائى اور اوپر كى جانب جائے، تو اس سے كوئى بھى حكم متعلق نہيں اور اسے فجر كاذب كہتے ہيں، پھر دن كى روشنى ہونے تك اختيار كا وقت رہتا ہے.

ديكھيں: المغنى ( 1 / 232 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" علماء نے ذكر كيا ہے كہ اس ـ يعنى فجر كاذب ـ كے درميان اور دوسرى فجر كے درميان تين قسم كے فرق ہيں:

پہلا فرق:

پہلى فجر لمبى ہوتى ہے نہ كہ چوڑى، يعنى مشرق كى جانب سے مغرب كى جانب لمبائى ميں ہوتى ہے.

اور دوسرى فجر شمال سے جنوب كى جانب چوڑائى ميں ہوتى ہے.

دوسرا فرق:

پہلى فجر اندھيرى ہوتى ہے، يعنى يہ روشنى كچھ دير كے ليے ہوتى ہے، اور اس روشنى كے بعد پھر اندھيرا چھا جاتا ہے، اور دوسرى فجر اندھيرى نہيں ہوتى، بلكہ اس كے بعد روشنى ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے.

تيسرا فرق:

دوسرى فجر افق كے ساتھ متصل ہوتى ہے، اور اس روشنى اور افق كے مابين كوئى اندھيرا نہيں ہوتا، اور پہلى فجر افق سے عليحدہ اور منقطع ہوتى ہے، اور افق اور اس روشنى كے مابين اندھيرا ہوتا ہے.

اور كيا پہلى فجر كى بنا پر كچھ مرتب ہوتا ہے ؟

نہيں اس فجر كى بنا پر شرعى امور ميں سے كچھ بھى مرتب نہيں ہوتا، نہ تو روزہ دار كى سحرى كا وقت ختم ہوتا ہے، اور نہ ہى نماز فجر كا وقت شروع ہوتا ہے، تو اس طرح سب احكام دوسرى فجر سے مرتب ہوتے ہيں " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 107 - 108 ).

دوم:

اور كيلنڈورں اور جنتريوں ميں جو كچھ پايا جاتا ہے وہ نماز فجر كى معرفت كے متعلق كوئى ثقہ اور پختہ مصدر نہيں، ان كلينڈروں اور جنترى اور اوقات نظام والے كلينڈورں كا غلط ہونا ثابت ہو چكا ہے.

اس ليے آپ پر واجب يہ ہوتا ہے كہ آپ نماز فجر كا وقت معلوم كرنے كے ليے ان كيلنڈروں اور جنتريوں وغيرہ پر اعتماد نہ كريں، اور آپ چاہيے كہ فجر صادق اور فجر كاذب كے فرق جو ہم اوپر بيان كر چكے ہيں كو مد نظر ركھتے ہوئے نماز فجر كا وقت معلوم كرنے كى كوشش كريں.

اور اگر روزانہ آپ آسمان كو نہيں ديكھ سكتے تو يہ ممكن ہے كہ آپ كيلنڈر ميں اذان كے وقت كے بعد احتياطى وقت ركھ ليں، اور ہمارے ملك ميں يہ وقت دوسرے ملك سے موسم كے اعتبار سے مختلف ہے، اس ليے آپ كے ليے مثلا آدھ گھنٹہ پر اعتماد كرنا ممكن ہے تا كہ آپ نماز فجر ادا كر سكيں، ليكن احتياط يہى ہے كہ كھانا پينا اس سے قبل بند كرديں.

اور پورا سال مختلف اوقات ميں فجر صادق كو ديكھ كر ايك كلينڈر بنا ليں تا كہ آپ كے بعد والے بھى اس سے مستفيد ہوں، اميد ہے كہ مسلمانوں كى عبادت صحيح كرنے كى وجہ سے آپ كو اللہ تعالى اجر عظيم عطا فرمائيگا.

اس ليے اگر تو آپ خود نماز فجر كے اوقات كى نگرانى اور ديكھ بھال كرنا ممكن ہو تو اس طرح آپ نماز اور روزے كے اوقات معلوم كر سكتے ہيں اور اگر ايسا ممكن نہ ہو تو آپ اس وقت نماز فجر ادا كريں جب آپ كا ظن غالب يہ ہو كہ اب وقت شروع ہو چكا ہے.

اور رہا روزے كا مسئلہ تو آپ كے ليے اس وقت تك كھانا پينا جائز ہے جب تك آپ كو طلوع فجر كا يقين نہ ہو جائے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم كھاتے پيتے رہو يہاں تك كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے البقرۃ ( 187 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تو جب اسے فجر طلوع ہونے كا يقين ہونے تك كھا پى سكتا ہے، اور اگر شك ہو تو بھى يقين ہونے تك " انتہى.

ديكھيں: فتاوى الصيام ( 299 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب