اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مقولہ ( عوام کا ارادہ اللہ کے ارادہ سے ہے ) کی عدم صحت

سوال

میں نے مفکروں کی بعض کتابوں میں یہ عبارت پڑھی ہے ( عوام کا ارادہ اللہ کے ارادہ سے ہے ) آپ سے گذارش ہے کہ اس عبارت کی صحت کے متعلق بتائيں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شیخ عبدالرحمن الدوسری سے اس عبارت کی اطلاق کے متعلق پوچھا گیا تو انکا جواب تھا:

یہ افتراء عظیم اور بعض مذہبی فلسفیوں اور اسے نافذ کرنے والوں نے اسکے ساتھ اللہ تعالی پر ایسی دلیری دکھائی ہے جسکی آج تک کسی بھی گزری ہوئی کفار قوموں کے دور میں مثال نہيں ملتی جبکہ اللہ تعال نے اسکی غایت بھی انکی اس قول کے ساتھ بیان کی ہے۔

"اگر اللہ تعالی کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہی ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے" الانعام148

تو اللہ تعالی نے انہيں جھوٹا کہا، اور انہوں نے اس تصوراتی عوام کے لئے یہ ارادہ اپنے منصوبوں کے نفاذ کا جواب نکالنے کے لئے بنایا ہے اور اس بہتان کے بہت سے لوازمات ہیں جو کہ اس کے قائل کو دور ہٹاتے ہیں۔ جبکہ انکے اس فاسد قول کی بنا پر تو وہ عوام جو کسی کتاب اور شریعت کے ساتھ منسلک نہیں جو چاہے کرے اور اپنی زندگی میں جس طرح مرضی تصرف کرتی پھرے بلکہ اپنی جواہشات کے موافق اور شہوت اور طاقت کے بل بوتے پر جیسے کہ کافر عوام اور قبیلے ایسے دین رکھتے ہیں جسے اللہ تعالی قبول نہیں فرماتا اور نہ ہی اخلاق اور فضائل کی رعایت کرتے ہیں۔

تو یہ ایک ایسا بہتان ہے جس کی ابوجہل اور اس جیسے دوسرے لوگوں نے اپنی خباثت اور دشمنی اور عناد کے باوجود بھی اتنی دلیری نہیں کی کیونکہ اس کی قباحت ۔۔۔۔۔۔ معروف تھی اور پھر عوام کے ذوق اور طلبات مختلف ہوتی ہیں، تو اگر عوام کا ارادہ اللہ تعالی کے ارادہ سے کر دیا جائے تو وجودی اور کیمونسٹ اور نازی اور یہودی اور جنگی وحشیوں وغیرہ کی خواہشات اور مطالبے اللہ تعالی کے ارادہ سے جسکا حکم دیا گیا ہے بن جائے گا اور ہر شریر النفس کی خواہشات اور عزتوں کو تار تار کرنے والے دلی مریض اور شرابی اور گندی طبیعت کے مالک اور دوسروں کے حساب پر اپنی خواہشات کو پورا کرنے والے یہ سب اللہ تعالی کے حکم میں سے ہونگے۔

تو اگر عوام کا ارادہ اور اسکی رغبات اللہ کے ارادہ کے اس حکم میں جسے وہ پسند کرتا ہے تو پھر یہ لوگ دوسروں پر کس چیز کی تنقید کرتے اور چیختے ہیں؟

اور اگر انکا ارادہ اللہ تعالی کے ارادہ سے جو کہ اسے پسند ہے تو پھر اللہ تعالی رسولوں کو کیوں بھیجتا اور کتابيں نازل کرتا اور جہاد کیوں مشروع کرتا اور لوگوں کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم کیوں ہے۔؟

تو یہ ہونا قطعی محال اور فجور گمراہی کی انتہاء ہے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے اس جھوٹ اور بہتان کو گھڑا ہے وہ اپنے آپ پر تو اسے نافذ اور اسکی تطبیق نہيں کرتے بلکہ اسے وہ اس عوام کے اوپر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ انکے ماتحت نہيں اور نہ ہی انکے اہداف پر چلتے ہیں۔

تو گویا کہ وہ عوام جسے وہ آگ اور لوہے کے ساتھ اپنا محکوم بناتے ہیں یہ وہ عوام ہیں جنکا ارادہ اللہ کے ارادہ سے بوسیدہ ہے۔

اور ضروری ہے کہ باطل میں تناقض ہو اور وہ اپنے اوپر ہی باطل کو ثابت کرے۔ تو جب انہوں نے عوام کو اللہ کے علاوہ شریک بنالیا تو اللہ تعالی کے ساتھ شرک عظیم کیا اور اس عوام کی خواہشات کو اللہ کی شریعت اور حکمت کا شریک بنادیا بلکہ انہیں تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اللہ کے حکم کو مانتے اور اسکی حدود پر عمل کرتے اور اسکی شریعت کو نافذ کرتے۔ .

ماخذ: دیکھیں کتاب: الاجوبۃ المفیدۃ لمہمات العقیدۃ ص77-78