اتوار 10 ربیع الثانی 1446 - 13 اکتوبر 2024
اردو

مطلقہ عورت كا دوران عدت رشتہ طلب كرنا

93237

تاریخ اشاعت : 15-02-2011

مشاہدات : 7478

سوال

كيا مطلقہ عورت كا دوران عدت رشتہ طلب كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يا تو صريح طور پر رشتہ طلب كيا جاتا ہے يا پھر تعريض كے طور پر.

صريح يہ ہے كہ: ايسے الفاظ استعمال كيے جائيں جو نكاح كے علاوہ كسى اور معانى پر محتمل نہ ہوں، مثلا: كہا جائے:

جب تيرى عدت ختم ہو جائيگى تو ميں تجھ سے نكاح كر لوں گا، يا پھر اس عورت كے ولى سے صريحا اس عورت كا رشتہ طلب كيا جائے.

اور تعريض يہ ہے كہ: ايسے الفاظ استعمال كيے جائيں جو منگنى وغيرہ كے معانى كا احتمال ركھتے ہوں، مثلا كوئى شخص كہے: آپ جيسى عورت كى رغبت كى جاتى ہے، يا ميں بيوى كى تلاش ميں ہوں، يا ہو سكتا ہے اللہ تعالى تيرے پاس خير و بھلائى لے آئے يا روزى لے آئے اس طرح كے الفاظ استعمال كرنا.

دوم:

عدت والى عورت كے ساتھ صريح الفاظ كے ساتھ رشتہ طلب كرنا جائز نہيں، چاہے طلاق رجعى والى عورت ہو يا پھر طلاق بائن والى عورت، يا پھر بيوگى كى عدت ميں ہو.

ليكن تعريض كے الفاظ تفصيل طلب ہيں:

1 ـ اگر تو عورت طلاق رجعى كى عدت ميں ہو تو پھر اس تعريض كے الفاظ ميں بھى رشتہ طلب كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ رجعى طلاق والى عورت ابھى تك اس كى بيوى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى نے رجعى طلاق والى عورت كے بارہ ميں فرمايا ہے:

اور ان كے خاوند انہيں واپس لانے كى زيادہ حقدار ہيں اگر وہ اصلاح كا ارادہ ركھتے ہوں البقرۃ ( 228 ).

چنانچہ اس آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے رجعى طلاق دينے والے شخص كو بعل يعنى " خاوند " كا نام ديا ہے، تو پھر يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ كوئى شخص كسى ايسى عورت كو شادى كا پيغام دے جو كسى دوسرے شخص كى عصمت و نكاح ميں ہو.

2 ـ اور اگر عورت خاوند فوت ہونے كى عدت ميں ہو يا پھر تين طلاق كى عدت بسر كر رہى ہو، يا پھر خاوند يا بيوى ميں كسى عيب كى بنا پر فسخ نكاح كى عدت ميں ہو يا كسى اور سبب سے فسخ نكاح كى عدت گزار رہى ہو تو اس كا تعريض كے الفاظ ميں رشتہ طلب كرنا جائز ہے، ليكن صريح الفاظ كے ساتھ جائز نہيں.

تعريض كے الفاظ كے جواز پر درج ذيل فرمان بارى تعالى دلالت كرتا ہے:

تم پر اس ميں كوئى گناہ نہيں كہ تم اشارۃً كنايۃً ان عورتوں سے نكاح كى بابت كہو، يا اپنے دل ميں پوشيدہ ارادہ كرو، اللہ تعالى كو علم ہے كہ تم ضرور ان كو ياد كرو گے، ليكن تم ان سے پوشيدہ وعدے نہ كر لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ تم بھلى بات بولا كرو، اور جب تك عدت ختم نہ ہو جائے عقد نكاح پختہ نہ كرو، جان لو كہ اللہ تعالى تمہارے دلوں كى باتوں كا بھى علم ركھتا ہے، تم اس سے خوف كھاتے رہا كرو، اور يہ بھى جان لو كہ اللہ تعالى بخشش والا اور علم والا ہے البقرۃ ( 235 ).

شيخ سعدى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:

يہ حكم اس عورت كے بارہ ميں ہے جس كا خاوند فوت ہو چكا ہو يا پھر جسے طلاق بائن ہو چكى ہو اور وہ عدت ميں ہو تو اسے طلاق بائن دينے والے كے علاوہ كسى اور شخص كے ليے صريح الفاظ ميں نكاح كا كہنا جائز نہيں.

اور اس فرمان بارى تعالى:

ليكن تم ان سے پوشيدہ وعدے بھى نہ كرو.

سے بھى يہى مراد ہے كہ يعنى منگنى كے وعدے نہ كرو.

ليكن تعريض ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے گناہ ساقط كر ديا ہے، ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ: صريح الفاظ نكاح كے علاوہ كسى اور معانى كے محتمل نہيں، اس ليے اللہ تعالى نے حرام كيا ہے كہ كہيں وہ نكاح ميں جلد بازى نہ كر لے اور اپنى عدت ختم ہونے ميں جھوٹ نہ بول دے، اور دوران عدت كسى اور سے وعدہ نہ كر كے اپنے پہلے خاوند كا حق پورا كرے.

ليكن تعريض اور اشارہ كنايہ يہ ہے كہ: جو نكاح وغيرہ كے معانى ركھتا ہو، يہ بائنہ عورت كے ليے جائز ہے مثلا كوئى شخص اسے كہے ميں شادى كرنا چاہتا ہوں، ميں چاہتا ہوں كہ عدت ختم ہونے كے بعد تم مجھ سے مشورہ كرنا يا اس طرح كے دوسرے الفاظ استعمال كرے تو يہ جائز ہيں كيونكہ يہ تصريح نہيں.

دلوں ميں اس كا قوى دافع ہے، اور اسى طرح كسى عدت والى عورت كے متعلق اپنے دل ميں ركھنا كہ جب اس كى عدت ختم ہو جائے تو وہ اس سے شادى كريگا، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:

يا پھر تم اپنے دلوں ميں پوشيدہ ارادہ كرو .

يعنى اس ميں كوئى حرج نہيں، عقد نكاح كے ابتدائى امور ميں يہ تفصيل ہے، رہا عقد نكاح تو عدت ختم ہونے سے قبل حلال نہيں:

" حتى كہ عدت ختم ہو جائے " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 106 ).

مزيد ديكھيں: المغنى ( 7 / 112 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 191 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب