الحمد للہ.
اگر اس شخص كا دين اور اخلاق صحيح اور پسنديدہ ہے تو اس سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں چاہے وہ فقير اور تنگ دست ہى ہے؛ كيونكہ ترمذى ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو تم اس سے ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور اس كے ليے آپ كى رضامندى سے آپ كا مال لينے ميں كوئى حرج نہيں، اور آپ كو اپنے خاوند كا خرچ برداشت كرنے اور اس كے ساتھ حسن سلوك كرنے كا اجروثواب حاصل ہو گا اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
چنانچہ اگر وہ اپنى خوشى سے كچھ مہر چھوڑ ديں ت واسے شوق سے خوش ہو كر كھاؤ النساء ( 4 ).
اور پھر فقر و تنگ دستى كوئى عيب نہيں، كيونكہ مال تو آنے جانے والى چيز ہے، اور فقير و تنگ دست غنى و مالدار بھى ہو سكتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم ميں سے جو مرد و عورت بےنكاح كے ہوں ان كا نكاح كر دو، اور اپنے نيك بخت غلام اور لونڈيوں كا بھى، اگر وہ مفلس و تنگ دست بھى ہوں گے تو اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے غنى بنا دےگا، اللہ تعالى كشادگى والا اور علم والا ہے النور ( 32 ).
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى والدہ كو مطمئن كريں اور اس كے سامنے واضح كريں كہ معيار مال نہيں، بلكہ تقوى اور عمل صالح معيار ہے.
اور اگر آپ كى والدہ اپنى رائے پر اصرار كرے اور آپ كے خيال ميں آپ كا اس شخص سے شادى كرنا صحيح ہے، نكاح كے صحيح ہونے كے ليے آپ كى شادى ميں آپ كا ولى ہونا ضرورى ہے نكاح كے ليے ولى كى شرط ہے، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے.
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور عورت كا ولى اس كا والد پھر اس كا بيٹا اور پھر ا سكا بھائى پھر اس كا بھانجا اور پھر اس كا چچا اور پھر چچا كا بيٹا جو كہ عصبہ كى ترتيب سے ہوتا ہے.
اور اگر اس كا ولى نہ ہو تو پھر قاضى اس كى شادى كريگا كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور اگر وہ جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہيں اس كا حكمران والى ہو گا "
مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر عورت كا شادى كرنے كى كوشش اور مہر ميں آسانى كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ كافى عقلمند ہے اور اس كى سوچ بھى اچھى ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے سب معاملات ميں آسانى پيدا كرے، اور آپ كى راہنمائى فرمائے.
واللہ اعلم .