الحمد للہ.
اگر اس رضاعى بھائى نے آپ كى والدہ كا پانچ رضاعت پورا دودھ پيا ہے تو وہ اس كى رضاعى ماں بنتى ہے، اور اس كا خاوند ( آپ كا والد ) اس كا رضاعى باپ ہو گا، اور آپ كے والد كى سب بيٹياں چاہے وہ كسى بھى بيوى سے ہوں وہ اس لڑكے كى رضاعى بہنيں ہونگى، اور آپ كى سب پھوپھياں اس كى رضاعى پھوپھياں ہونگى.
اہل علم كے ہاں يہ مسئلہ " لبن الفحل " يعنى خاوند كے دودھ كے نام سے پہچانا جاتا ہے، كيونكہ خاوند ہى دودھ والا ہے، يا خاوند ہى دودھ آنے كا سبب ہے، تو اس طرح اس كى جانب سے بھى اسى طرح حرمت ثابت ہو گى جس طرح دودھ پلانے والى عورت كى جانب سے ہوتى ہے.
اسى ليے دودھ پينے والے بچے كا رضاعى باپ اور رضاعى چچا، اور رضاعى پھوپھى الخ ہونگے.
بخارى اور مسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتى ہيں:
" ابو القعيس كے بھائى افلح نے پردہ نازل ہونے كے بعد اندر آنے كى اجازت طلب كى تو ميں نے كہا:
اللہ كى قسم ميں اس وقت تك اجازت نہيں دونگى جب تك رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں، كيونكہ ابو القعيس كے بھائى نے مجھے دودھ نہيں پلايا، ليكن مجھے تو ابو القعيس كى بيوى نے دودھ پلايا ہے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس آئے ميں نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: مجھے آدمى نے تو دودھ نہيں پلايا، بلكہ اس كى بيوى نے مجھے دودھ پلايا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اسے اجازت دو اور آنے دو كيونكہ وہ تمہارا چچا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6156 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3315 ).
تو اس حديث ميں رضاعى باپ ہونے كى دليل ملتى ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى بنا پر افلح كو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا رضاعى چچا كہا؛ كيونكہ وہ ان كے رضاعى باپ كا بھائى تھا.
حاصل يہ ہوا كہ:
وہ بھائى جس نے آپ كى والدہ كا دودھ پيا ہے وہ والد كى جانب سے آپ كى بہن كا رضاعى بھائى ہوا، اسى طرح آپ كى نسب كے اعتبار سے پھوپھياں بھى اس كى رضاعى پھوپھياں شمار ہونگى.
واللہ اعلم .