اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا جمعہ کے دن یوم عرفہ آنے کی کوئی فضیلت یا امتیازی خصوصیت ہے؟

95283

تاریخ اشاعت : 28-09-2014

مشاہدات : 9783

سوال

کیا یہ درست ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن آئے تونماز جمعہ سے موافقت ہونے کی بنا پر سات حج کے برابر ہوگا؟ اللہ تعالی آپکو ہزاروں خیرات سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمیں کسی حدیث کا علم نہیں ہے کہ جس میں یہ ہو کہ اگر یومِ عرفہ جمعہ کے دن آئے تو اس سال  حج سات حج کے برابر ہوتا ہے، لیکن ایک جگہ "ستّر حج  " کا ذکر ہے، اور ایک جگہ: "بہتّر حج " کا ذکر ہے، لیکن یہ دونوں روایات کسی صورت میں بھی درست نہیں ہیں!

چنانچہ پہلی روایت کے الفاظ  جس حدیث میں آئے ہیں، وہ حدیث باطل اور صحیح نہیں ہے، جبکہ دوسری روایت  کی ہمیں کوئی سند یا متن  نہیں ملا، چنانچہ یہ بے بنیاد  روایت ہے۔

اس بارے میں وارد شدہ روایت کے متن  [کا ترجمہ ]یوں ہے:
" ایام میں افضل ترین  دن جمعہ کے روز آنے والا عرفہ کا دن ہے، اور وہ جمعہ کے علاوہ کسی اور دن میں آنے والے ستّر حج   سے بہتر ہے"

اس روایت کے باطل اور صحیح نہ ہونے کے بارے میں ائمہ کرام نے حکم  لگایا ہے:

1- ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لوگوں میں زبان زد عام  بات کہ  اس دن کا حج  بہتّر حج کے برابر ہے، تو یہ باطل بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ، کسی صحابی یا تابعی سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم
" زاد المعاد " ( 1 / 65 )

2-  شیخ البانی رحمہ اللہ   " سلسلہ ضعیفہ " ( 207 ) میں حدیث پر حکم لگانے کے بعد کہ یہ حدیث باطل ہے، اسکی کوئی بنیاد نہیں ہے، کہتے ہیں:
"علامہ زیلعی  کا " حاشیہ ابن عابدين " ( 2 / 348 ) میں کہنا  کہ: "اس حدیث کو رزین بن معاویہ  نے  " تجرید الصحاح " میں روایت کیا ہے" تو اس کے بارے میں یہ ذہن نشین کر لیں کہ رزین  کی اس کتاب میں  حدیث کی چھ بڑی کتب کو جمع کیا ہے، جن میں صحیح بخاری، مسلم، موطا امام مالک، سنن ابو داود،  سنن نسائی، اور سنن ترمذی شا مل ہیں، اس کیلئے بالکل وہی انداز اپنایا ہے جو ابن اثیر کی کتاب  " جامع الأصول من أحاديث الرسول " میں ہے، لیکن "التجرید " میں بہت سی ایسی احادیث ہیں جو مذکورہ اصل کتابوں میں موجود ہی نہیں ہے، جیسے کہ یہ بات سب  کے علم میں ہے کہ ان سے نقل کرنے والے علمائے کرام میں  منذری  " الترغيب و الترهيب "  میں نقل کرتے ہیں، اور یہ حدیث بھی اسی قسم میں  شامل ہے کہ بلاشبہ یہ حدیث  اصل کتابوں یا معروف حدیث کی کتابوں میں نہیں ہے، بلکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد"(1/17)  میں اسکے باطل ہونے کی واضح لفظوں میں وضاحت کی ہے، انہوں نے جمعہ کے دن وقوف عرفہ کی امتیازی دس وجوہات بیان کرنے کے بعد کہا: " لوگوں میں زبان زد عام  بات کہ  اس دن کا حج  بہتّر حج کے برابر ہے، تو یہ باطل بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ، کسی صحابی یا تابعی سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہے "

اسی بات کو مناوی  نے " فیض القدير " ( 2 / 28 ) اور انکے بعد ابن عابدين  نے " حاشیہ " میں  ثابت کیا ہے" انتہی

اسی طرح " سلسلہ ضعیفہ" ( 1193 ) میں البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سخاوی رحمہ اللہ " فتاوى حديثیۃ " ( ق 105/2 ) میں کہتے  ہیں:"رزین نے اسے اپنی کتاب "جامع" میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مرفوعاً ذکر کیا ہے، لیکن اسے روایت کرنے والے صحابی، اور اپنی کتاب میں نقل کرنے والے  محدث کا نام نہیں بتلایا، واللہ اعلم"انتہی

اور " سلسلہ ضعیفہ" ( 3144 ) میں آپ رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"حافظ ابن حجر نے "فتح الباری" (8/204) میں اس حدیث کیلئے  رزین کی کتاب "الجامعۃ" میں سے حدیث کا مرفوعاً حوالہ دیتے ہوئے  کہا: "مجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہے؛ کیونکہ رزین نے اسے روایت کرنے والے صحابی، اور نقل کرنے والے محدث کا نام تک ذکر نہیں کیا"

پھر کہا کہ: حافظ ابن ناصر الدین دمشقی  نے اپنے جزء: " فضل يوم عرفۃ" میں کہا ہے کہ:
"حدیث: (جمعہ کے دن یوم عرفہ کا وقوف بہتّر حج کے برابر ہے) باطل ، اور صحیح نہیں ہے، اسی طرح یہ زر بن حبیش سے مروی: (اس دن وقوف عرفہ  جمعہ کے علاوہ دیگر ایام میں کئے ہوئے ستّر حج سے بہتر ہے) حدیث بھی پایا ثبوت  تک نہیں پہنچتی"انتہی

3- شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے جمعہ کے دن حج  کے بارے میں کوئی فضیلت ملتی ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے جمعہ کے دن یوم عرفہ آنے کی صورت میں کوئی فضیلت نہیں ملتی، لیکن علمائے کرام کا یہ خیال ہے کہ یوم عرفہ اور جمعہ کا دن اکٹھا ہونے میں اضافی خیر ہے [اسکی درج ذیل وجوہات ہیں]

پہلی وجہ: تا کہ حج اسی طرح ہو جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج کیا تھا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھی وقوف عرفہ جمعہ کے دن ہی  ملا تھا۔

دوسری وجہ: جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں  کوئی بھی بندہ اللہ تعالی سے کھڑے ہو کر کچھ بھی مانگے تو اللہ تعالی اسے وہی چیز عطا فرماتا ہے، تو اس طرح قبولیت  کا  امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔

تیسری وجہ: یوم عرفہ ایک تہوار ہے، اور جمعہ کا دن بھی تہوار ہے، چنانچہ دو تہواروں کے اکٹھے ہونے میں خیر  ہوگی۔

جبکہ یہ مشہور ہوجانا کہ جمعہ کے دن کا حج  ستّر حج کے برابر ہے، تو یہ صحیح نہیں ہے"انتہی
" اللقاء الشهری" ( 34 / سوال نمبر: 18 )

4-  دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر عرفہ کا دن جمعہ کے دن آجائے ، جیسے اس سال آرہا ہے، تو  یہ حج سات حج کے برابر ہوگا، تو کیا سنت میں اس بارے میں کوئی دلیل ملتی ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"سنت میں  اس کے متعلق کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ ایسا حج ستر یا بہتّر حج کے برابر ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے"
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 11 / 210 ، 211 )

مزید کیلئے دیکھیں: " فتح الباری " ( 8 / 271 )  اور " تحفۃ الأحوذی" ( 4 / 27 )

دوم:

مذکورہ گفتگو کے بعد، لوگوں میں اس بات کے مشہور ہونے  کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ بات فقہائے احناف، اور شوافع  کی کتب میں ملتی ہیں۔

چنانچہ احناف کہتے ہیں کہ:
"جمعہ کے دن وقوف عرفہ  کا امتیاز  ستر حج والا ہے، اور ایسے عرفہ کے دن میں ہر فرد کو بلا واسطہ معاف کر دیا جاتا ہے"[بلا واسطہ مغفرت کی   وضاحت آگے آئے گی۔ مترجم]

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"یوم عرفہ اگر جمعہ کے دن آجائے تو یہ سب سے افضل دن ہے، اور یہ جمعہ کے علاوہ دیگر ایام میں آنے والے ستّر حج سے بہتر ہے۔"
" رد المحتار على الدر المختار " ( 2 / 621 )

جبکہ شافعی فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"اور کہا گیا ہے کہ : اگر جمعہ کے دن یوم عرفہ ہوجائے تو اللہ تعالی عرفہ میں موجود سب کو معاف کردیتا ہے، یعنی بلا واسطہ معاف فرما دیتا ہے، جبکہ  عرفہ  جمعہ کے علاوہ کسی اور دن میں ہوتو  واسطے کیساتھ معاف کرتا ہے، یعنی : برے لوگوں کو نیک لوگوں کی سفارش  سے معاف فرماتا ہے"
" مغنی المحتاج " ( 1 / 497 )

سوم:

اس حدیث کے باطل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جمعہ کے دن وقوفِ عرفہ  کا کوئی امتیاز ہے ہی نہیں، بلکہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس دن وقوف  کے بارے میں دس امتیازات بیان کئے ہیں، ہم انکی اہمیت اور فائدے کے پیش نظر  انہیں ذکر کرتے ہیں۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"صحیح بات یہ ہے کہ ہفتے کے دنوں  میں جمعہ کا دن سب سے افضل ہے، اور یومِ عرفہ و یوم نحر سال کے افضل ترین دن  ہیں، اسی طرح لیلۃ القدر ،اور جمعہ سے پہلے والی  رات بھی افضل ترین راتیں ہیں، اسی لئے جمعہ کے دن یوم عرفہ کی دیگر تمام ایام کے مقابلے میں خصوصیات ہیں ، اور اسکی متعدد وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: اس طرح سے دو افضل ترین دن اکٹھے ہوتے ہیں۔

دوسری وجہ: جمعہ کے دن  دعا کی یقینی قبولیت کی گھڑی ہے، اور اکثر  کا یہی قول  ہے کہ وہ عصر کے بعد ہے، اور اسی وقت میں عرفات کا میدان   کھڑے ہو کر دعائیں مانگنے والوں سے بھرا ہوتا ہے۔

تیسری وجہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اسی دن وقوف عرفہ فرمایا تھا، اس طرح آپکی موافقت بھی ہوتی ہے۔

چوتھی وجہ: جمعہ کے دن ساری دنیا کے لوگ خطبہ اور نماز  جمعہ کیلئے جمع ہوتے ہیں، اور یہ وقت  عین وہی لمحہ ہے جس وقت حجاج کرام  عرفات میں  موجود  ہوتے ہیں، اس طرح  پوری دنیا کی مساجد   کے لوگوں اور عرفات میں حجاج  کے درمیان دعا و گریہ زاری کیلئے ایک ایسی اجتماعیت پیدا ہوجاتی ہے ، جو کسی اور دن میں حاصل ہونا  ممکن ہی نہیں ہے۔

پانچویں وجہ: جمعہ کا دن  عید کا دن ہے، اور عرفہ کا دن  عرفات میں موجود لوگوں کیلئے عید کا دن ہے، اسی لئے  عرفات میں موجود لوگوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا۔
ہمارے شیخ [یعنی ابن تیمیہ] کہتے ہیں : یوم عرفہ ، عرفات میں موجود لوگوں کیلئے عید ہے؛ کیونکہ وہ اسی دن اکٹھے ہوتے ہیں، جبکہ  دیگر علاقوں  کے لوگ آئندہ  روز یوم نحر کو جمع ہوتے ہیں، تو ان کیلئے عید کا دن یوم نحر بنا، بات کا مقصد یہ ہے کہ : جس دن یوم عرفہ، اور جمعہ کا دن اکٹھے ہو جائیں تو اس طرح دو عیدیں اکٹھی ہوجاتی ہیں۔

چھٹی وجہ:  جمعہ کے دن یوم عرفہ آنے کی وجہ سے اس دن کی موافقت ہوتی ہے جس دن اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے نعمت مکمل کرتے ہوئے دین کامل کیا تھا، جیسے کہ صحیح بخاری میں  طارق بن شہاب سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: "ایک یہودی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا: امیر المؤمنین! ایک آیت آپ لوگ قرآن میں پڑھتے ہو، اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی ، اور ہمیں اس دن کے نازل ہونے کا علم ہوتا تو ہم اسے اپنے لئے عید کا دن  بناتے! آپ نے پوچھا: کونسی آیت؟ یہودی نے کہا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت مکمل کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کرلیا۔ [المائدة : 3] تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں جانتا ہوں  کہ یہ آیت کس دن ، کس جگہ ، اور کس بارے میں نازل ہوئی، یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر عرفات میں جمعہ کے دن  نازل ہوئی، اور ہم آپ کے ساتھ عرفات میں وقوف کئے ہوئے تھے"

ساتویں وجہ: یہ دن  ایک بڑے اجتماع  سے بھی موافقت  رکھتا ہے، اور بڑے اجتماع سے مراد قیامت  کا دن ہے؛ کیونکہ قیامت جمعہ کے دن ہی  قائم ہوگی، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (سورج طلوع ہونے کا بہترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اور اسی میں جنت  کا داخلہ ملا، اور اسی دن جنت سے نکالا گیا، اور اسی دن  قیامت قائم ہوگی، اور جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جس میں کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے بھلائی مانگے تو اللہ تعالی اسے وہی عطا فرماتا ہے)۔۔۔

آٹھویں وجہ: جمعہ کے دن اور اس سے پہلے والی رات  میں مسلمان دیگر ایام کی بہ نسبت زیادہ اطاعت گزاری کرتے ہیں، حتی کہ بد کردار طبقہ بھی جمعہ کے دن اور اس سے پہلے آنیوالی رات کا احترام کرتے ہیں، انکا یہ ماننا ہے کہ : جو شخص بھی اس دن اللہ کی نافرمانی کرے تو اللہ تعالی اسے مہلت نہیں دیتا بلکہ  اسے جلد از جلد سزا سے دوچار فرما دیتا ہے، یہ ایسا معاملہ ہے  کہ انہیں اس بات پر بہت زیادہ یقین ہے، اور انہیں مشاہداتی طور پر بھی اسکا یقین ہو چکا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ دن عظمت والا ہے، اللہ کے ہاں اسکا بہت بلند مقام ہے، اور اللہ تعالی نے اسے دیگر تمام ایام سے  الگ  چنا ہے، لہذا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس دن وقوف عرفہ  کا امتیاز ہے جو دیگر ایام میں نہیں ہے۔

نویں وجہ: یہ وقوف جنت میں "یوم مزید" کے موافق ہے، ۔۔۔ اور وہ جمعہ کا دن ہے، چنانچہ جس دن  یوم عرفہ  جمعہ کے دن ہوا تو اسکی شان کو چار چاند لگ جاتے ہیں، اور خصوصیات بڑھ جاتیں ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں۔

دسویں وجہ: اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام کو عرفات میں وقوف کرنے والوں  کے قریب ہوتا ہے، اور پھر فرشتوں کے سامنے  فخر فرماتا ہے۔۔۔    ۔

چنانچہ ان وجوہات کی بنا پر جمعہ کے دن وقوفِ عرفہ  کو دیگر ایام میں وقوف پر فضیلت دی گئی ہے۔

جبکہ لوگوں میں زبان زد عام  بات کہ  اس دن کا حج  بہتّر حج کے برابر ہے، تو یہ باطل بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ، کسی صحابی یا تابعی سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم" انتہی
" زاد المعاد " ( 1 / 60 – 65 ) سے کچھ اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب