الحمد للہ.
جس طرح آپ نے بيان كيا ہے رپورٹ ميں اس طرح كا تصرف كرنا دھوكہ و فراڈ ہے جو كہ جائز نہيں، جس كے نتيجہ ميں لوگوں كا ناحق مال كھايا جاتا ہے، اور جو كوئى بھى اس دھوكہ اور فراڈ ميں شريك ہو گا وہ گنہگار ہے.
واجب تو يہ ہے كہ جو كام كيا جا رہا ہے اس كے عيوب كا خريدار كو بتايا جائے، اور اگر وہ اس پر راضى ہوتا ہے تو ٹھيك، وگرنہ كاريگر اسے ٹھيك كريں اور اس كى مرمت كر كے ديں جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى دھوكہ ديا وہ ہم ميں سے نہيں ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 101 ).
اور امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے حكيم بن حزام رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تك خريدار اور فروخت كرنے والا ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوتے انہيں اختيار حاصل ہے، اور اگر وہ سچائى اختيار كرينگے اور وضاحت كر دينگے تو ان دونوں كى بيع ميں بركت كر دى جائےگى، اور اگر وہ چھپائيں گے، اور جھوٹ بوليں گے تو ان كى بيع كى بركت مٹا دى جائيگى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2079 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1532 ).
يہ بات آپ كے علم ميں ہونى چاہيے كہ روزى ايك ايسا معاملہ ہے جو اللہ تعالى نے آسمان و زمين پيدا كرنے سے قبل ہى لكھ ديا تھا اور اس كا اندازہ مقرر كر ديا تھا، اس ليے روزى كا كم ہونا اور دير سے آنا آپ كو اس پر نہ ابھاريں كہ آپ اللہ كى معصيت و نافرمانى كے ذريعہ روزى حاصل كرنے لگيں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا روح القدس نے ميرے دل ميں يہ بات ڈالى ہے كہ كوئى بھى جان اس وقت تك فوت نہيں ہوگا جب تك كہ وہ اپنى روزى پورى نہ كر لے، اور سارا رزق كھا نہ لے، تو تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے روزى كا حصول اچھى طرح كرو، اور تم ميں سے كسى كو بھى روزى كا ليٹ اور كم ہو جانا اس پر مت ابھارے كہ تم اللہ كى نافرمان و معصيت كر كے روزى حاصل كرنے لگو، كيونكہ جو كچھ اللہ تعالى كے پاس ہے وہ اللہ كى اطاعت و فرمانبرداى كے ذريعہ ہى حاصل ہو سكتا "
اسے ابو نعيم نے " الحليۃ " ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2085 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے آپ كو چاہيے كہ آپ كمپنى كے ذمہ داران كو نصيحت كريں اور ان كے سامنے اس بات كى وضاحت كريں كہ دھوكہ دينا حرام ہے، اور دنيا ميں اس كى سزا بركت ختم ہونا، اور آخرت ميں عذاب ظلم اور لوگوں كا ناحق مال كھانے كى سزا ہے، اگر تو كمپنى كے ذمہ داران آپ كى بات تسليم كر ليں تو ، اور اگر وہ قبول نہيں كرتے تو اس كام كو ترك كر كے كوئى اور كام تلاش كر ليں.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كو وہم وگمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل كرتا ہے اللہ تعالى اس كو كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنے كام كو پورا كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى روزى ميں وسعت كرے، اور آپ كے مال و دولت ميں بركت فرمائے، اور آپ كو حرام كے بدلے حلال دے كر حرام سے غنى اور بے پرواہ كر دے.
واللہ اعلم .