الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالى سے دعاگو ہيں كہ وہ آپ كى بيوى كو شفايابى و عافيت سے نوازے، اور آپ دونوں كو صبر و اجروثواب كى نيت عطا فرمائے.
دوم:
بغير كسى عذر شرعى كے عورت كو اپنا سر منڈانا جائز نہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
عورت كے ليے اپنے سر كے بال بغير ضرورت منڈوانے جائز نہيں، اس كى دليل ترمذى اور نسائى كى درج ذيل حديث ہے.
على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كو اپنا سر منڈوانے سے منع فرمايا "
اور خلال نے اپنى سند كے ساتھ قتادۃ عن عكرمہ سےروايت كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كو اپنا سر منڈوانے سے منع فرمايا "
اور حسن رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ مثلہ ہے.
اور اثرم رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں:
" ميں نے ابو عبد اللہ ( يعنى امام احمد ) سے سنا ان سے كسى نے بوڑھى عورت جو اپنے بال نہ سنبھال سكتى ہو اور ان كى ديكھ بھال كرنے سے عاجز تو كيا وہ اپنے بال كاٹ سكتى ہے ؟
تو انہوں نے فرمايا: " كس ليے ؟ "
ان سے عرض كيا گيا: وہ انہيں تيل لگانے اور كنگھى كرنے پر قادر نہيں، اور نہ ہى ان كى ديكھ بھال كر سكتى ہے، اور ان ميں جوئيں پڑ جائينگى ؟
انہوں نےفرمايا: اگر ضرورت كى بنا پر ہو تو مجھےاميد ہے كہ اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 179 ).
آپ نے سوال ميں ذكر كيا ہے وہ عذر شمار ہوتا ہے، اس ليے آپ پر كوئى حرج نہيں كہ بال زيادہ قوى اور سخت بنانے كے ليے سر منڈا ديں، كيونكہ يہ معاملے ك واصل كى طرف واپس لانا ہے، اور اس عيب كا علاج كرنا ہے جو بيمارى كى بنا پر پيدا ہو گيا تھا.
واللہ اعلم .