اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

خاوند کی شھوت قوی ہوتو بیوی کیا کرے ؟

9602

تاریخ اشاعت : 05-09-2004

مشاہدات : 77860

سوال

ہماری شادی چھ ماہ قبل ہوئي ہے اورہمیں ہم بستری کے بارہ میں ایک مشکل ہے جسے ہم ابھی تک منظم نہيں کرپائے ، کیونکہ خاوند کی رغبت بہت ہی قوی اورشدید ہے ، میں نے اس کی خواہش پوری کرنے کی کوشش توکی ہے لیکن نہیں کرسکی اوراب میں بہت ہی تکلیف محسوس کرتی ہوں اوربدنی طورپرمجھ میں اس کی طاقت نہیں رہی ۔
میرے خاوند نے اس سے بہت ہی برا تاثر لیا ہے اور گھر میں مجھ سے علیحدہ رہنے لگا ہے ، مجھے یہ توعلم ہے کہ میں اس کی رغبت کوپوری کروں ، لیکن ہمارے ایک دوسرے کے بارہ میں واجبات کیا ہيں ؟
اگرطرفین کی رضامندی کے باوجود ہم میں سے کوئي ایک دوسرے کے قریب رہنے کی طاقت نہ رکھے ، توکیا خاوند کے لیے جائز ہے کہ وہ اس طریقے سے مجھ سے علیحدہ ہو ؟
اورکیا اسے یہ حق ہے کہ وہ میرے پاس صرف یہ تعلق قائم کرنےکے لیے ہی آئے باوجود اس کے ہم نے ابھی تک اکٹھے بات چیت بھی نہیں کی ؟
ان حالات کے باوجود المحد للہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اوربہت ہی خوش ہيں اورہر ایک دوسرے کا احترام بھی کرتا ہے ، لیکن ہم اپنی زندگي کی اس مشکل کا اسلامی حل چاہتے ہیں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

خاوند پر واجب اورضروری ہے کہ وہ بیوی سے حسن معاشرت کرے ، اورحسن معاشرت میں جماع بھی شامل ہے ، جوکہ اس پر واجب ہے ، جمہور علماء کرام نے ہم بستری کے لیے مدت مقرر کی ہے کہ زيادہ سے زيادہ چار مہینہ تک کے لیے جماع چھوڑا جاسکتا ہے ، اورصحیح تو یہی ہے کہ وہ کوئي مدت محدد نہ کرے بلکہ بیوی کے لیے جتنا کافی ہو اس سے اتنی ہی ہم بستری کرنی چاہیے ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

مرد پر جب اس کے پاس کوئي عذر نہ ہو تواپنی بیوی سے ہم بستری واجب ہے ، امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا بھی یہی قول ہے ۔

دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 7 / 30 ) ۔

جصاص رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

خاوند پرضروری ہے کہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

کہ تم اسے معلق کرکے چھوڑ دو یعنی نہ تواسے فار‏غ کرو کہ وہ کہیں اورشادی کرلے ، کہ جب خاوند اسے ہم بستری کا حق نہیں پورا کرتا تو وہ ایسے ہی ہے کہ اس کا خاوند نہ ہو ۔

دیکھیں احکام القرآن للجصاص ( 1 / 374 ) ۔

اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ا للہ تعالی کہتے ہيں :

خاوند پر اپنی بیوی کی کفایت کے حساب ہم بستری کرنا واجب ہے ، جب تک خاوند کا بدن لاغر نہ یا پھر وہ اسے اس کی معیشت سے روک دے ، اورچارماہ کی تحدید کیے بغیر ۔ دیکھیں : الاختیارات الفقھیۃ ص ( 246 ) ۔

جب خاوند بیوی کوہم بستری کے لیے بلائے تواس پر واجب ہے کہ وہ اس کی بات تسلیم کرے اگروہ انکار کرے گی تونافرمان ہوگي ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی آنے سے انکار کردے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 3065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1436 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

جب خاوند بیوی کوہم بستری کے لیے بلائے تواس پر واجب ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے کیونکہ یہ اس پر فرض اورواجب ہے ۔۔۔ اور جب بھی وہ ہم بستری کرنا قبول نہ کرے تونافرمان شمار ہوگی ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اوروہ عورتیں جن کی نا فرمانی سے تم ڈرتے ہو انہيں وعظ ونصیحت کرو اورانہیں بستروں میں الگ کردو ، اورانہیں مار کی سزا دو جو کہ شدید نہ ہو ، اگروہ تمہاری اطاعت کرلیں توپھر ان پر کوئي راہ تلاش نہ کرتے پھرو ۔

دیکھیں الفتاوی الکبری ( 3 / 145 - 146 ) ۔

خاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ بیوی کے ساتھ طاقت سے زيادہ ہم بستری کرے ، اگر وہ بیماری کی وجہ سے ہم بستری کرنے سے معذور ہویا پھر اس کی برادشت سے باہر ہوتووہ ہم بستری کرنے سے انکار پر گنہگار نہیں ہوگی ۔

حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

لونڈی اورآزاد عورت پر فرض ہے کہ جب اس کا مالک اورخاوند جب بھی اسے ہم بستری کی دعوت دے تووہ اس کی بات قبول کرے اورانہیں انکار نہیں کرنا چاہیے ، لیکن جب وہ حائضہ یا پھر مریض ہوں اورہم بستری ان کےلیے تکلیف دہ ہو ، یاپھر فرضی روزے سے ہوں تو پھر انکار کرسکتی ہیں ، اوراگربغیر کسی عذر کے انکار کریں تووہ ملعون ہیں ۔ محلی ابن حزم ( 10 / 40 ) ۔

اوربھوٹی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

خاوند کواپنی بیوی سے ہر وقت استمتاع کا حق ہے ۔۔۔ جب تک کہ اسے وہ فر‏ائض سے مشغول نہ کرے اوریا پھر اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو ۔

تواسی حالت میں خاوند کواس سے استمتاع کا حق نہیں کیونکہ ایسا کرنا حسن معاشرت میں داخل نہیں ، اورجب اسے فرائض سے مشغول نہ کرے اورنہ ہوی اس کے لیے نقصان دہ ہو تو پھر خاوند کو حق استمتاع حاصل ہے ۔

دیکھیں کشف القناع ( 5 / 189 ) ۔

ایسی بیوی جسے خاوند کی زيادہ ہم بستری نقصان اورتکلیف دہ ہوتی ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے خاوند سے مصالحت کرے اوراس کے ساتھ اپنی برداشت کےمطابق ہم بستری کی تعداد متعین کرلے ، اوراگروہ اس سے زيادہ کرے حتی کہ اسے نقصان اورتکلیف دے توپھر اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا معاملہ عدالت میں لےجائے اورقاضی کوبیان کرے اورقاضی کوحق حاصل ہے کہ وہ اس کے لیے تعداد متعین کرے جو خاوند اوربیوی دونوں پر لازم ہو ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

خاوند پر اپنی بیوی کی کفایت کے حساب ہم بستری کرنا واجب ہے ، جب تک خاوند کا بدن لاغر نہ یا پھر وہ اسے اس کی معیشت سے روک دے ، اورچارماہ کی تحدید کیے بغیر ۔۔۔۔

اوراگروہ آپس میں تنازع کریں توحاکم کو چاہیے کہ وہ خاوند پرنفقہ کی طرح ہم بستری اگرزيادہ کرتا ہے تواس کی تعداد متعین کرکے اس پر لازم کرے ۔

دیکھیں : الاختیارات الفقھیۃ ص ( 246 ) ۔

اوراب جبکہ آپ کے ملک میں شرعی عدالت نہیں توبیوی کوچاہیے کہ وہ اس معاملہ میں اپنے خاوند کے ساتھ متفق ہوکر اسے حل کرلے ، اوراسے صراحتا اپنے خاوند سے بات کرنی چاہیے ، اوراس کے سامنے وہ احادیث اورآیات بیان کرے جس میں حسن معاشرت کا ذکر ہے اورحکم دیا گيا ہے کہ خاوند بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرے ۔

اوربیوی کواپنے خاوند کے لیے یہ بھی بیان کرنا چاہیے کہ وہ اس سے انکار تونہیں کرتی لیکن جوچيز اس کے نقصان دہ ہے اورجس کی وہ متحمل نہيں اوروہ نقصان اورتکلیف دیتی ہے وہ اس سے انکار کرتی ہے ، بلکہ وہ خود تواس پر حریص ہے کہ آپ کی اطاعت اورآپ کی خواہش و رغبت پوری کرے اوربات کوتسلیم کرے ۔

ہم سوال کرنے والی بہن کونصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے خاوندکے معاملہ میں صبرو تحمل سے کام لے ، اوراس معاملہ کو حسب استطاعت برداشت کرے اوراسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اسے اس پر اللہ تعالی کی جانب سے اجر وثواب بھی ملے گا ۔

اورخاوند پربھی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرے اوراس کا خوف اپنے ذہن میں رکھے ، اوراس پر ایسا کام مسلط نہ کرے جواس کی برداشت سےہی باہر ہو ، اوراسے اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے ، اورحسن معاشرت اختیار کرنی چاہیے ۔

اگراس کی شھوت اتنی ہی زيادہ ہے کہ اسے ایک بیوی کافی نہیں تو پھروہ اس کا حل کیوں نہیں تلاش کرتا ، ہوسکتا ہے یہ مشکل خاوند اوربیوی کے مابین تعلقات میں خرابی اورناچاقی کا باعث بن جائيں ، یا پھر اس سے بھی خطرناک کام میں پڑ جائے کہ اپنی شھوت کوحرام طریقے سے پوری کرنا شروع کردے ۔

اس مشکل کوحل کرنے کے لیے جوحل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ دوسری شادی کرلے ، کیونکہ اللہ تعالی نے مرد کےلیے مباح کیا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں چاربیویاں رکھ سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگر وہ ان میں عدل وانصاف اوربرابری کرنے کی طاقت رکھتا ہو وگرنہ نہیں ۔

اوراس مشکل کا حل یہ بھی ہے کہ :

وہ روزے کثرت سے رکھنے شروع کردے ، اس لیے کہ روزے شھوت کوکم کردیتے ہیں ۔

ایک حل یہ بھی ہے کہ : شھوت کم کرنے والی ادویات استعمال کرے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ وہ نقصان دہ نہ ہوں ۔

اللہ تعالی سے دعاگوہوں کہ وہ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب