جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

اصول شاشى اور اس كى شرحيں اور " الحكميات " كا معنى

96347

تاریخ اشاعت : 05-11-2008

مشاہدات : 24156

سوال

اصول شاشى ميں " مشترك اور مؤول " كى بحث ميں ايك كلمہ " الحكميات " ہے اس كا معنى كيا ہے، برائے مہربانى اگر اس كتاب كى كوئى شروحات ہوں تو اس كا بھى بتائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اصول شاشى احناف كى مشہور كتابوں ميں شامل ہوتى ہے اور اس كے مؤلف " ابو على الشاشى احمد بن محمد بن اسحاق نظام الدين الفقيہ حنفى متوفى ( 344 )ھـ ہيں.

يہ ابو الحسن كرخى كے شاگرد ہيں، ان كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں: ابو على سے زيادہ حافظ ہمارے پاس كوئى نہيں آيا، شاشى بغداد ميں رہے اور وہيں تعليم حاصل كى.

كتاب اصول شاشى كانپور انڈيا ميں مطبعہ مجيدى سے 1388 ہجرى ميں چھپى اور درالكتاب العربى بيروت سے ( 1402 ) ہجرى ميں چھپى اس كے حاشيہ پر عمدۃ الحواشى شرح اصول شاشى تاليف محمد فيض الحسن گنگوہى مطبوع ہے، اور كتب العلميۃ بيروت ( 1423 ) ہجرى ميں چھپى جس كا ترجمہ اور تحقيق عبد اللہ محمد الخليلى كا ہے، اور يہ كتاب دار الغرب الاسلامى نے محمد اكرم ندوى كى تحقيق سے ( 1422 ) ہجرى ميں طبع كى.

كتاب كى شروحات:

1 - شرح مولى محمد بن الحسن الخوارزمى متوفى ( 781 ھـ ).

2 - حصول الحواشى على اصول الشاشى تاليف حسن ابو الحسن بن محمد السنبھلى الہندى طبع بمبئى نولكشر ( 1302 ھ).

3 - عمدۃ الحواشى تاليف مولى محمد فيض الحسن گنگوہى يہ اصول شاشى كے ساتھ مطبوع ہے.

4 - تسھيل اصول الشاشى تاليف شيخ محمد انور بدخشانى طبع ادارۃ القرآن و العلوم الاسلاميۃ كراچى طبع اول ( 1412ھـ ) يہ تسھيل اسطنبولم ميں تصوير بھىكى گئى ہے.

ديكھيں: اصول شاشى كا مقدمہ لشيخ خليل الميس.

دوم:

كلمہ " حكميات " جو مشار اليہ مضمون ميں وارد ہے اور اصول شاشى كے علاوہ احناف كى دوسرى كتب ميں بھى ہے اس كا معنى يہ ہے:

عقد وغيرہ مثلا شادى، اور طلاق، اور بيوع، يہ وہ ہيں جو زبان سے قول كے ساتھ بن سكے، اور يہ وہ معنوي اشياء ہيں جو ان كے ہاں حسى اشياء كے مقابلہ ميں ہوں، اور حسيہ وہ ہيں جو جوارع ( يعنى ہاتھ وغيرہ ) كے ساتھ افعال ہوں مثلا زدكوب كرنا اور ذبح كرنا ....

ذيل ميں ہم ان كى كتب سے اس طرح كى عبارتيں پيش كرتے ہيں جو ان كى كلام اور شرح پر مشتمل ہيں جو اس كلمہ كا معنى اور مقصود واضح كرتى ہيں:

1 - عثمان بن على زيلعى حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور اگر قسم اٹھانے والا طلاق اور شادى ـ اور دوسرى حكميات ـ ميں يہ كہے: نويت لا اتكلم بہ، و لا الي بنفسي: صدق ديانۃ لا قضاء.

بخلاف بكرى ذبح كرنے اور غلام كو مارنے ميں يہ كہے: نويت ان لا الى بنفسي حيث يصدق ديانۃ و قضاء.

ديكھيں: تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق ( 3 / 148 ).

2 - اور رحمہ اللہ كہتے ہيں:

پھر يہ اشياء اقوال ميں حجر يعنى ترك كرنا واجب كرتے ہيں افعال ميں نہيں؛ كيونكہ حجر حكميات ميں ہے حسيات ميں نہيں، اور قول كا نفوذ حكمى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ قول رد بھى ہوتا ہے اور قبول بھى، ليكن فعل حسى ہے جب واقع ہو تو اس كا رد كرنا ممكن نہيں، اس ليے اس ميں حجر كا تصور بھى نہيں ہو سكتا.

ديكھيں: تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق ( 5 / 191 ).

اس سے اصول شاشى كى عبارت كا معنى واضح ہو جاتا ہے كہ اس سے حكميات ميں بيوع مراد ہے، جبكہ انہوں نے كہا ہے: اس كى مثال حكميات ميں ہم نے جو كہا ہے: جب بيع ميں بولے تو يہ ملك اور علاقے ميں غالب نقدى پر ہو گا، اور يہ تاويل كے طريقہ سے ہے، اور اگر كئى قسم كى نقدى اور كرنسى ہو تو ہم نے جو ذكر كيا ہے اس كى وجہ سے بيع فاسد ہو جائيگى، اور قروء كو حيض پر محمول كيا ہے انتہىز

انہوں نے حكميات كى مثال بيوع پر دى ہے، اور يہ واضح ہے جب ان كى شادى اور طلاق پر مثال معلوم ہو گئى اور وہ يہ كہ اس لفظ سے قولى اور معنوي عقود اور معاہدے مراد ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب