الحمد للہ.
اول:
پہلى بات تو يہ ہے كہ زنا ايك عظيم جرم اور كبيرہ گناہ ہے جس كى بنا پر زانى سے ايمان سلب ہو جاتا ہے، اور وہ عذاب و ذلت اور رسوائى سے دوچار ہوتا ہے، الا يہ كہ وہ توبہ و استغفار كر لے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم زناكارى كے قريب بھى نہ جاؤ، يقينا يہ بہت فحش كام اور برا راہ ہے الاسراء ( 32 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب زانى زنا كرتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہيں ہوتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2475 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 57 ).
اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب مرد زنا كرتا ہے تو اس سے ايمان خارج ہو جاتا ہے وہ اس پر سائبان كى طرح ہوتا ہے، اور جب وہ زنا ختم كرتا ہے تو ايمان اس ميں واپس آ جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4690 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2625 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا ہے كہ زانيوں كو قيامت سے قبل ان كى قبروں ميں آگ كا عذاب ديا جائيگا.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1320 ).
اور پھر اس جرم كى قباحت كى بنا پر اللہ عزوجل نے اس كى سزا رجم ركھى ہے كہ اگر زانى شادى شدہ ہے تو اس كو موت تك پتھر مارے جائيں، اور اگر شادى شدہ نہيں تو اسے ايك سو كوڑے مارے جائيں.
اور جو شخص بھى اس ميں مبتلا ہو اسے اس كام سے جتنى جلدى ہو سكے توبہ كرنى چاہيے، اور اس اميد سے كثرت كے ساتھ اعمال صالحہ كرے كہ اللہ عزوجل اسے معاف كر ديگا.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى اور كو معبود نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اس نفس كو قتل كرتے ہيں جسے قتل كرنا اللہ نے حرام كيا ہے، مگر حق كے ساتھ، اور نہ ہى وہ زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے اسے گناہ ہو گا، اور روز قيامت اسے دگنا عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اس ميں رہے گا، سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كر ليں اور ايمان لے آئيں، اور نيك كام كريں، اللہ تعالى ايسے لوگوں كے گناہوں كو نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اللہ تعالى بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے الفرقان ( 67 - 70 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور يقينا ميں اس شخص كو بہت زيادہ بخشنے والا ہوں جو توبہ كرتا اور ايمان لاتا اور نيك و صالح اعمال كرتا اور پھر ہدايت پر رہتا ہے طہ ( 82 ).
اور ان دونوں كو چاہيے كہ اگر اللہ عزوجل نے ان كے اس گناہ پر پردہ ڈالا ہوا ہے تو وہ اس پردہ ميں ہى رہيں اور اس كى خبر كسى دوسرے كو مت ديں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ان گندى اشياء سے اجتناب كرو جن سے اللہ سبحانہ و تعالى نے منع كر ركھا ہے، اور اگر كوئى شخص اس كا شكار ہو جائے تو اسے اللہ كے پردہ سے پردہ اختيار كرنا چاہيے "
اسے بيہقى نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے احاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 663 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
دوم:
زانى مرد اور زانى عورت كا آپس ميں اس وقت تك نكاح جائز نہيں جب تك كہ وہ اس گناہ سے سچى اور پكى توبہ نہ كر ليں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
زانى مرد سوائے زانى يا مشركہ عورت كے كسى اور سے نكاح نہيں كرتا، اور زانيہ عورت سوائے زانى يا مشرك مرد كے كسى اور سے نكاح نہيں كرتى، اور ايمان والوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے النور ( 3 ).
يعنى زانى مرد اور عورت كا نكاح حرام ہے.
اس ليے اگر تو دونوں نے شادى سے قبل اس حرام كام سے توبہ كر لى تھى تو ان كا نكاح صحيح ہے، ليكن اگر انہوں نے توبہ سے قبل عقد نكاح كرايا تھا تو ان كا نكاح صحيح نہيں، اور انہيں اپنے كيے پر نادم ہو كر اس سے توبہ كرنى چاہيے اور آئندہ پختہ عزم كرنا چاہيے كہ وہ اس كام كو دوبارہ نہيں كريں گے، پھر وہ اپنا نكاح دوبارہ كرائيں، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 85335 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .