جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

خاوند كى لاعلمى ميں خاوند كا مال صدقہ كرنا

96516

تاریخ اشاعت : 26-04-2013

مشاہدات : 3422

سوال

ميرے خاوند كى مالى حالت بہت اچھى ہے، اور ہمارى ازدواجى زندگى اچھى اور بہترى كى طرف گامزن ہے، اللہ سے صحيح طرح زندگى بسر كرنے كى توفيق كى دعا ہے درج ذيل معاملات ميں شرعى حكم معلوم كرنا چاہتى ہوں:
ميں وقتا فوقتا خاوند كے مال سے كچھ رقم لے كر خفيہ طور پر نيكى كے كاموں ميں صرف كر ديتى ہوں، اور خاوند كو اس كے متعلق كچھ علم نہيں كہ ميں نے كيا ليا اور كہا صرف كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميں نے كئى ايك بار خاوند سے تھوڑى سى رقم نيكى كے كاموں ميں صرف كرنے كے بارہ ميں دريافت كيا تو اس نے مجھے كبھى منع نہيں كيا اور نہ ہى اس ميں ركاوٹ ڈالى ہے، مجھے يہ كہتا ہے مجھے مت بتايا كرو كہ تم كہاں خرچ كرتى ہو. خاوند مجھ پر مكمل اعتماد اور بھروسہ كرتا ہے كہ ميں اللہ كى مدد سے نيكى و خير و بھلائى ہى كرتى ہوں، تو كيا ميں اپنے ان تصرفات كى بنا پر كہيں گنہگار تو نہيں ہو رہى ؟
اور كيا مجھے ہر بار رقم لينے كا اسے بتانا ہوگا اور اس كے علم ميں لانا ہوگا كہ ميں كہا خرچ كر رہى ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيوى كا اپنے خاوند كى اجازت سے خاوند كى رقم صدقہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، جب خاوند اسے پورى صراحت كے ساتھ اجازت دے دے يا پھر جس كى حالت اور اخلاق سے اس كى رضامندى كا علم ہوتا ہو كہ وہ صدقہ كرنے سے ناراض نہيں ہوگا تو بھى اس كى بيوى صدقہ و خيرات كر سكتى ہے.

ليكن اگر خاوند روك دے يا پھر بيوى كو علم ہو كہ وہ اس پر راضى نہيں ہوگا تو اس صورت ميں خاوند كے مال ميں سے كچھ بھى صدقہ كرنا جائز نہيں ہوگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كيا بيوى كے ليے خاوند كے مال اجازت كے بغير سے قليل سا مال صدقہ كرنا جائز ہے ؟

اس ميں دو روايتں ہيں: پہلى روايت جواز كى ہے كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورت جو بھى اپنے خاوند كے گھر ميں بغير كوئى خرابى كيے صدقہ كرے تو اس عورت كو بھى اجروثواب حاصل ہوگا، اور خاوند كو بھى اس كا اجر ملےگا اس نے كمايا ہے، اور بيوى كو خرچ كرنے كا ثواب حاصل ہوگا، اور اسى طرح خزانچى كو بھى، اور ان كے اجروثواب ميں كوئى بھى كمى نہيں كى جائيگى "

يہاں اس حديث ميں خاوند كى اجازت كا ذكر نہيں كيا گيا كہ اس كى اجازت سے خرچ كرے.

اور اسماء رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس تو وہى كچھ ہے جو زبير رضى اللہ تعالى عنہ لاتے ہيں، تو كيا جو وہ ميرے پاس لاتے ہيں ميں اس سے دے سكتى ہوں ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم حسب استطاعت صدقہ كيا كرو "

الرضخ عطاء كو كہا جاتا ہے.

اور بخارى كى روايت ميں " تم صدقہ كرو " كے الفاظ ہيں

متفق عليہ.

اور اس ليے بھى كہ عادتا اس كى اجازت دے دى جاتى ہے اور خوشى ہوتى ہے، اس ليے يہ صريح اجازت كے قائم مقام ٹھرا.

اور دوسرى روايت عدم جواز كى ہے يعنى اجازت كے بغير صدقہ كرنا جائز نہيں، ليكن پہلى روايت زيادہ صحيح ہے...

اور اگر خاوند اس سے روك دے اور منع كرتے ہوئے كہے تم كچھ بھى صدقہ نہ كرو اور ميرے مال سے تھوڑى يا زيادہ چيز بھى خيرات مت دو تو بيوى كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں ہوگا " انتہى بتصرف و اختصار

ديكھيں: المغنى ( 4 / 301 ).

خاوند كى اجازت سے صدقہ كرنے كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" عورت اپنے گھر سے خاوند كى اجازت كے بغير خيرات مت كرے.

عرص كيا گيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كھانا اور غلہ بھى نہيں ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہى تو ہمارے اموال ميں افضل ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3565 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

قولہ صلى اللہ عليہ وسلم: " خاوند كى اجازت كے بغير " يعنى صريح اور واضح اجازت كے بغير، يا پھر حالت كى دلالت كے بغير.

ديكھيں: عون المعبود.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر كوئى عورت اپنے خاوند كى اجازت كے بغير اس كا مال صدقہ كرے تو كيا حكم ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

اصل تو يہى ہے كہ عورت كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے مال سے صدقہ و خيرات كرنا جائز نہيں، ليكن اگر عادت كے مطابق تھوڑا اور قليل سا ہو مثلا پڑوسيوں كے ساتھ حسن سلوك كرنے يا پھر مانگنے كے ليے آنے والوں كو تھوڑا كچھ دے دينے ميں خاوند كو كوئى ضرر اور نقصان نہيں دےگا، اور اجروثواب دونوں كو حاصل ہوگا.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہى فرمان ہے، اور پھر كميٹى كے علماء نے مندرجہ بالا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا والى حديث ذكر كى ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 81 ).

جب آپ كے خاوند نے آپ كو اجازت دے ركھى ہے تو ان شاء اللہ آپ كے ليے ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو بركت سے نوازے، اور قبوليت كے شرف سے نوازے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب