جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

گھر ميں گھنٹى اور الارم والى گھڑى استعمال كرنا

96588

تاریخ اشاعت : 27-10-2007

مشاہدات : 7060

سوال

كچھ لوگ كہتے ہيں كہ الارم والى گھڑى حرام ہے، كيونكہ اس ميں موسيقى ہے، كيا يہ بات صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس قافلہ ميں كتا اور گھنٹى ہو اس كے ساتھ فرشتے نہيں ہوتے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2113 ).

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" گھنٹى مزمار شيطان ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2114 ).

صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

گھنٹى كے متعلق يہ كہا گيا ہے كہ: گھنٹى سے فرشتوں كى نفرت كا باعث يہ ہے كہ يہ ناقوس كے مشابہ ہے، يا پھر ان لٹكانے والى اشياء ميں ہے جس سے منع كيا گيا ہے، اور يہ بھى كہا گيا ہے اس كا سبب آواز كى كراہت ہے، اور اس كى تائيد مزامير شيطان والى روايت كرتى ہے " انتہى.

اس كى آواز سے كراہت كا سبب يہ ہے كہ اس ميں سر اور گانے كى مشابہت پائى جاتى ہے جسے ممنوعہ گانے سے ملحق كيا جاتا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

حاصل يہ ہوا كہ: آواز كے دو پہلو اور جہتيں ہيں: ايك تو اس كى قوت ہے، اور دوسرى گھنٹى بجنا ہے، ....

سر اور گانے كے اعتبار سے اس ميں نفرت پيدا ہوئى ہے اور اس كى علت اس كا مزمار شيطان ہونا بيان كيا ہے " انتہى.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ فرشتے اس قافلہ كے ساتھ نہيں ہوتے جس ميں گھنٹى ہو؛ كيونكہ جانوروں كے چلنے اور ان كے ہلنے سے موسيقى اور سر پيدا ہو گا، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ گانے بجانے كے آلات حرام ہيں ) انتہى.

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 4 / 340 ).

اور رہا مسئلہ الارم والى گھڑى وغيرہ كا مسئلہ تو اس ميں گزارش يہ ہے كہ اگر تو يہ گھڑى وغيرہ موسيقى كى آواز پر مشتمل ہو تو يہ حرام ہے كيونكہ گانے بجانے كى حرمت ميں عمومى دلائل پائے جاتے ہيں، ليكن عام گھنٹى والى گھرى ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

( اور جو كچھ الارم والى گھڑيوں اور اس كے مشابہ اشياء ميں ہے تو يہ ممنوعہ اشياء ميں شامل نہيں....

اور اسى طرح جو گھنٹى دروازے پر لگائى جاتى ہے، جسے بجا كر اجازت طلب كى جاتى ہے، كيونكہ بعض دروازوں پر اجازت لينے كے ليے گھنٹى لگى ہوتى ہے، اس ميں بھى كوئى حرج نہيں، اور يہ ممانعت ميں شامل نہيں ہوتى، اس ليے كہ يہ كسى جانور وغيرہ پر لٹكى ہوئى نہيں، اور نہ ہى اس سے وہ سر حاصل ہوتا ہے جس سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كيا ہے ) انتہى.

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 4 / 340 - 341 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

حرام گھنٹى كونسى ہے ؟ يہ علم ميں رہے كہ اس وقت اليكٹرانك گھنٹياں موجود ہيں، جن سے پرندوں كى آوازيں پيدا ہوتى ہيں، اور گھڑيوں ميں بھى ہر گھنٹہ بعد گھنٹى بجتى ہے، اور اس كے علاوہ بھى كئى قسم كى گھنٹياں پائى جاتى ہيں ؟

تو كميٹى كا جواب تھا:

" گھروں اور سكولوں وغيرہ ميں استعمال كى جانے والى گھنٹياں اس صورت ميں جائز ہيں جب يہ حرام پر مشتمل نہ ہوں، مثلا عيسائيوں كے ناقوس كى آواز كى طرح، يا پھر موسيقى كى آواز پر مشتمل نہ ہوں، كيونكہ اس صورت ميں اس موسيقى اور ناقوس كى آواز كى بنا پر يہ حرام ہونگى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 26 / 284 ).

واللہ اعلم .

امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس قافلہ ميں كتا اور گھنٹى ہو اس كے ساتھ فرشتے نہيں ہوتے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2113 ).

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" گھنٹى مزمار شيطان ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2114 ).

صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

گھنٹى كے متعلق يہ كہا گيا ہے كہ: گھنٹى سے فرشتوں كى نفرت كا باعث يہ ہے كہ يہ ناقوس كے مشابہ ہے، يا پھر ان لٹكانے والى اشياء ميں ہے جس سے منع كيا گيا ہے، اور يہ بھى كہا گيا ہے اس كا سبب آواز كى كراہت ہے، اور اس كى تائيد مزامير شيطان والى روايت كرتى ہے " انتہى.

اس كى آواز سے كراہت كا سبب يہ ہے كہ اس ميں سر اور گانے كى مشابہت پائى جاتى ہے جسے ممنوعہ گانے سے ملحق كيا جاتا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

حاصل يہ ہوا كہ: آواز كے دو پہلو اور جہتيں ہيں: ايك تو اس كى قوت ہے، اور دوسرى گھنٹى بجنا ہے، ....

سر اور گانے كے اعتبار سے اس ميں نفرت پيدا ہوئى ہے اور اس كى علت اس كا مزمار شيطان ہونا بيان كيا ہے " انتہى.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ فرشتے اس قافلہ كے ساتھ نہيں ہوتے جس ميں گھنٹى ہو؛ كيونكہ جانوروں كے چلنے اور ان كے ہلنے سے موسيقى اور سر پيدا ہو گا، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ گانے بجانے كے آلات حرام ہيں ) انتہى.

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 4 / 340 ).

اور رہا مسئلہ الارم والى گھڑى وغيرہ كا مسئلہ تو اس ميں گزارش يہ ہے كہ اگر تو يہ گھڑى وغيرہ موسيقى كى آواز پر مشتمل ہو تو يہ حرام ہے كيونكہ گانے بجانے كى حرمت ميں عمومى دلائل پائے جاتے ہيں، ليكن عام گھنٹى والى گھرى ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

( اور جو كچھ الارم والى گھڑيوں اور اس كے مشابہ اشياء ميں ہے تو يہ ممنوعہ اشياء ميں شامل نہيں....

اور اسى طرح جو گھنٹى دروازے پر لگائى جاتى ہے، جسے بجا كر اجازت طلب كى جاتى ہے، كيونكہ بعض دروازوں پر اجازت لينے كے ليے گھنٹى لگى ہوتى ہے، اس ميں بھى كوئى حرج نہيں، اور يہ ممانعت ميں شامل نہيں ہوتى، اس ليے كہ يہ كسى جانور وغيرہ پر لٹكى ہوئى نہيں، اور نہ ہى اس سے وہ سر حاصل ہوتا ہے جس سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كيا ہے ) انتہى.

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 4 / 340 - 341 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

حرام گھنٹى كونسى ہے ؟ يہ علم ميں رہے كہ اس وقت اليكٹرانك گھنٹياں موجود ہيں، جن سے پرندوں كى آوازيں پيدا ہوتى ہيں، اور گھڑيوں ميں بھى ہر گھنٹہ بعد گھنٹى بجتى ہے، اور اس كے علاوہ بھى كئى قسم كى گھنٹياں پائى جاتى ہيں ؟

تو كميٹى كا جواب تھا:

" گھروں اور سكولوں وغيرہ ميں استعمال كى جانے والى گھنٹياں اس صورت ميں جائز ہيں جب يہ حرام پر مشتمل نہ ہوں، مثلا عيسائيوں كے ناقوس كى آواز كى طرح، يا پھر موسيقى كى آواز پر مشتمل نہ ہوں، كيونكہ اس صورت ميں اس موسيقى اور ناقوس كى آواز كى بنا پر يہ حرام ہونگى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 26 / 284 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب