الحمد للہ.
اكثر شافعى فقھاء اور حنابلہ كا مسلك يہى ہے كہ ايك ہى قبر ميں ايك سے زيادہ ميت دفن كرنا جائز نہيں، ليكن اگر ضرورت پيش آ جائے كہ شہداء كى كثرت ہو، يا پھر كوئى وبا پھيل جائے، يا آگ لگنے يا غرق ہونے كى بنا پر زيادہ افراد مر جائيں اور ہر ايك كو عليحدہ قبر ميں دفن كرنا مشكل ہو جائے تو اس وقت ايك ہى قبر ميں دو يا تين افراد كو دفن كرنا جائز ہے، ليكن مرد كے ساتھ عورت كو زيادہ شديد ضرورت كے بغير دفن كرنا صحيح نہيں، اور اگر ايسى حالت پيش بھى آجائے تو دونوں كے درميان مٹى كى آڑ بنائى جائيگى.
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جنگ احد كے مقتولوں ميں دفن كرتے وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو آدميوں كو ايك ہى كپڑے ميں جمع كرتے اور فرماتے ان ميں ميں زيادہ قرآن كسے ياد ہے؟ جب ان ميں سے كيسى ايك كى طرف اشارہ كيا جاتا تو لحد ميں پہلے اسے اتارتے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں روز قيامت ان كى شہادت دونگا، اور انہيں ان كے خون اور كپڑوں ميں ہى دفن كرنے كا حكم ديا، نہ تو انہيں غسل ديا گيا اور نہ ہى ان كى نماز جنازہ ادا كى گئى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1343 ).
ہشام بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم نے جنگ احد والے دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے شكايت كى كہ:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ہمارے ليے ہر ايك شخص كے ليے عليحدہ قبر كھودنا بہت شديد مشكل ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" زيادہ گہرى كھودو اور اچھى طرح كھود كر ايك قبر ميں دو دو اور تين تين شخص دفن كردو "
صحابہ كرام نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم لحد ميں اتارنے ميں مقدم كسے كريں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے زيادہ قرآن ياد كيا ہو "
راوى كہتے ہيں كہ ميرے والد ايك قبر ميں تين افراد ميں تيسرے تھے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 2010 ) يہ الفاظ نسائى شريف كے ہيں، سنن ترمذى حديث نمبر ( 1713 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3215 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بغير كسى ضرورت ايك ہى قبر ميں دو مرد اور دو عورتيں دفن كرنا جائز نہيں، سرخسى رحمہ اللہ نے ايسے ہى بيان كيا ہے كہ ايسا كرنا جائز نہيں، اور اكثر كى عبارت يہ ہے كہ: ايك قبر ميں دو كو دفن نہيں كيا جائيگا، مصنف كى عبارت جيسى عبارت ہى بيان كى ہے، اور ايك جماعت نے صراحت كى ہے كہ ايك ہى قبر ميں دو افراد كو دفن نہ كرنا مستحب ہے ليكن اگر كوئى ضرورت پيش آجائے اور كسى وبا يا انہدام اور غرق وغيرہ كى بنا پر اموات كى تعداد زيادہ ہو جائيں اور ہر شخص كو ايك قبر ميں دفن كرنا مشكل ہو تو پھر دو يا تين يا اس سے زائد افراد كو مذكورہ حديث كى بنا پر ايك قبر ميں حسب ضرورت دفن كرنا جائز ہے.
ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: تو اس حالت ميں قبلہ كى جانب پہلے افضل شخص كو مقدم كيا جائيگا، اور اگر مرد، بچہ اور عورت جمع ہو جائيں تو سب سے پہلے مرد كو اور پھر بچے كو اور پھر ہيجڑے كو اور پھر عورت كو ركھا جائيگا.
ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: اور باپ كو والد ہونے كى حرمت كے پيش نظر بيٹے پر مقدم كيا جائيگا، چاہے بيٹا افضل ہو، اور ماں كو بيٹى پر مقدم كيا جائيگا، اور عورت اور مرد كو ايك ہى قبر ميں نہيں جمع كيا جا سكتا، ليكن شديد قسم كى ضرورت كے پيش نظر ايسا كيا جاسكتا ہے، اور اس وقت دونوں كے درميان مٹى كى آڑ بنائى جائيگى، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اور مرد كو پہلے قبر ميں ركھا جائيگا چاہے وہ بيٹا ہى كيوں نہ ہو "
ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 247 ).
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ:
ايك قبر ميں ايك شخص سے زيادہ افراد كو دفن كرنا صرف مكروہ ہے، مالكيہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت يہى ملتى ہے، اور اسے شيخ الاسلام ابن تيميہ نے بھى اختيار كيا ہے .
ديكھيں: الانصاف ( 2 / 551 ) شرح الخرشى ( 2 / 134 ).
اور دوسرے علماء عدم كراہت كا مسلك ركھتے ہوئے كہتے ہيں: ايسا كرنا صرف افضليت كو ترك كرنا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميرے نزديك راجح ـ واللہ اعلم ـ درميانہ قول ہے، اور وہ كراہت كا قول ہے، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اختيار كيا ہے، ليكن اگر پہلا شخص قبر ميں دفن ہو چكا ہو، اور اپنى قبر ميں ٹھرا اور استقرار پا چكا ہو تو وہ اس كا زيادہ حقدار ہے، تو اس وقت دوسرا شخص اس ميں داخل نہيں كيا جائيگا، ليكن بہت شديد ضرورت كے وقت ايسا ہو سكتا ہے " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 369 ).
واللہ اعلم .