الحمد للہ.
ہم آپ كى اى ميل كے جواب ميں چند ايك امور بيان كريں گے، اس ليے آپ پورى توجہ كے ساتھ متنبہ رہيں:
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوندوں كو حكم ديا ہے كہ وہ اپنى بيويوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كريں، اور ان كے ليے بيان كيا ہے كہ ہو سكتا ہے ان سے اس بيوى كے ليے ناپسنديدگى وارد ہو، اس ليے اسے فورى طور پر بيوى كو طلاق نہيں دينى چاہيے، بلكہ وہ اسے دو اسباب كى بنا پر اپنے پاس ركھے اور صبر سے كام لے:
پہلا سبب:
يہ كہ اگر وہ بيوى كے كسى كام اور اخلاق كو ناپسند كرتا ہے تو اس كے كسى دوسرے كام اور اخلاق سے خوش ہو جائيگا، اور اس شخص كو بھى ايسے ہى كہا جائيگا جس كى بيوى تو خوبصورت ہو ليكن اسے اس كا اخلاق پسند نہ ہو تو ہم اسے كہيں گے كہ:
تم اس كے اخلاق سے راضى ہو جاؤ، اور اس اخلاق كو اسے ركھنے كا سبب بناؤ اور اس پر صبر كرو، كيونكہ يہى عورت تمہارى عزت اور مال كى حفاظت كے بہتر ہے، اور يہى عورت تمہارى اولاد كى تربيت بھى كريگى.
دوسرا سبب:
يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے صبر كرنے ميں دنيا و آخرت ميں خير كثير پيدا كريگا، دنيا ميں اس سے نيك و صالح اولاد عطا كر كے، اور آخرت ميں صبر و تحمل كى بنا پر اجروثواب عطا فرمائيگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو، اور اگر تم انہيں ناپسند كرتے ہو تو ہو سكتا ہے تم انہيں ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميںں خير كثير پيدا فرما دے النساء ( 19 ).
امام طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو، اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم انہيں ناپسند كرتے ہوئے بھى اپنے پاس ركھو تو اللہ تعالى تمہارا انہيں ناپسنديدگى كے باوجود اپنے پاس ركھنے ميں ہى خير كثير پيدا فرما دے، اور ان ميں تمہيں اولاد نصيب فرمائے، يا پھر ناپسنديدگى كے بعد تم انہيں پسند كرنے لگو "
تفسير الطبرى ( 8 / 122 ).
اور امام ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ تعالى:
اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے .
يعنى: ہو سكتا ہے كہ تمہارا انہيں ناپسند كرنے كے باوجود اپنے پاس ركھنا اور صبر كرنا ہى دنيا و آخرت كے ليے بہتر ہو جيسا كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہا كا اس آيت كے بارہ قول ہے:
وہ اپنى بيوى پر مہربانى كرے تو اللہ تعالى اس سے اسے اولاد عطا فرمائے، اور اس بچے ميں خير كثير ہو.
اور حديث ميں آيا ہے كہ:
" كوئى بھى مومن كسى مومنہ عورت سے بغض نہيں ركھتا، اگر اس كے كسى اخلاق سے ناراض ہوگا، تو اس كے كسى دوسرے اخلاق سے راضى ہو جائيگا "
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 243 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك پر واجب ہے كہ اللہ تعالى نے ان پر جو حسن معاشرت اختيار كرنا واجب كى ہے اسے قائم كريں، اور خاوند اپنى بيوى پر اس اعتبار سے مسلط نہ ہو جائے كہ وہ بيوى سے اعلى اور افضل ہے، اور بيوى كے سارے معاملات اس كے ہاتھ ميں ہيں.
اور اسى طرح بيوى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ خاوند كے سامنے بڑا بننے كى كوشش كرے اور نافرمانى كرے، بلكہ خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كو حسن معاشرت اختيار كرنى چاہيے.
اور يہ تو معلوم ہے كہ خاوند كى جانب سے بيوى كے ليے ناپسنديدگى پيدا ہو سكتى ہے، يا تو بيوى كى جانب سے حقوق كى ادائيگى ميں كوتاہى كى بنا پر، يا پھر بيوى كى عقل اور ذكاوت ميں كمى كى وجہ سے، يا كسى اور سبب كى بنا پر.
تو پھر اس عورت كے ساتھ كس طرح كا معاملہ كيا جائے؟
ہم كہيں گے كہ: يہ تو قرآن مجيد ميں موجود ہے، اور سنت نبويہ بھى اس كى راہنمائى فرماتى ہے.
اللہ تبارك و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا فرما دے النساء ( 19 ).
اور يہ چيز واقع ميں بھى ہے كہ بعض اوقات كوئى انسان كسى سبب كى بنا پر بيوى كو ناپسند كرتا ہے، اور پھر اس پر صبر كرتے ہوئے اسے اپنے پاس ركھتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالى اس ميں خير كثير پيدا فرما ديتا ہے، اور يہ ناپسنديدگى و كراہت محبت و مودت ميں بدل جاتى ہے، اور اكتاہت راحت ميں تبديل ہو جاتى ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان يہ ہے كہ:
" كوئى مومن مرد كسى مومنہ عورت كو ناپسند نہيں كرتا، اور نہ ہى اس سے بغض ركھتا ہے، اگر اس كے كسى اخلاق كو ناپسند كرتا ہے تو اس كے كسى دوسرے اخلاق سے راضى ہو جاتا ہے "
ذرا يہا جو مقابلہ ہے وہ ديكھيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اللہ سبحانہ و تعالى نے كتنى حكمت سے نوازا ہے كہ:
" اگر بيوى كا كوئى اخلاق ناپسند كرے تو اس كے كسى دوسرے اخلاق سے راضى ہو جائيگا "
كيا كسى شخص كى اس دنيا ميں سارى مراديں پورى ہوئى ہيں ؟ نہيں كبھى نہيں ہو سكتيں، آپ كى مراديں اس دنيا ميں پورى نہيں ہو سكتيں، اگر كسى چيز كے متعلق مراد پورى بھى ہو گئى تو كسى اور چيز ميں پورى نہيں ہوگى، حتى كہ دنوں ميں بھى اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان دنوں كو ہم لوگوں كے مابين پھيرتے رہتے ہيں آل عمران ( 140 ).
اور ايك جاہلى شاعر كا قول ہے:
ايك ہمارے خلاف اور ايك دن ہمارے حق ميں.
جب آپ تجربہ كريں گے تو آپ ايسا ہى پائيں گے، دنيا ايك ہى حالت ميں نہيں رہتى، اسى ليے ايك ضرب المثل ہے كہ: " ايك ہى حالت برقرار رہنى محال ہے "
اس ليے اگر آپ اپنى بيوى كا كوئى كام ناپسند كرتے ہيں تو آپ اس كا مقابلہ اس كے كسى ايسے كام سے كريں جو آپ كو راضى كرنے والا ہے تا كہ آپ مطمئن ہو جائيں.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح جزء نمبر ( 159 ) كا مقدمہ.
دوم:
سوال كرنے والے بھائى آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بتا چكے ہيں كہ جمال و خوبصورتى ان اسباب ميں سے ايك سبب ہے جس كى بنا پر عورت سے شادى كى جاتى ہے.
ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارى راہنمائى اس سے بھى افضل اور بہتر چيز كى طرف كى ہے كہ ايك دين والى عورت سے شادى كى جائے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عورت چار اسباب كى بنا پر بياہى جاتى ہے، عورت كے مال و دولت كى بنا پر، اور عورت كے حسب و نسب كى وجہ سے، اور عورت كى خوبصورتى و جمال كى بنا پر، اور عورت كے دين كى بنا پر، تمہارے ہاتھ خاك ميں مليں تم دين والى كو اختيار كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4802 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
بدر الدين العينى رحمہ اللہ اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
قولہ: " اور اس كے دين كى وجہ سے "
كيونكہ اسى وجہ سے دنيا و آخرت كى خير و بھلائى حاصل ہوتى ہے، اور دين والوں اور مروت سے متصف لوگوں كے لائق بھى يہى ہے كہ وہ دين والى كو اختيار كريں، اور ان كا مطمع نظر دين ہى ہونا چاہيے، اور خاص كر اس معاملہ ميں جو ہميشہ رہنے والا ہے اور آپ كى سارى زندگى ميں ساتھ ہے.
اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بڑى تاكيد اور بليغ وجہ سے اختيار كرنے كا حكم ديتے ہوئے اسے اختيار كرنے كا حكم ديا جو اس كى غايت ہے، اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" چنانچہ تم دين والى كو اختيار كرو "
كيونكہ اسے اختيار كر كے تم دارين كے فائدے حاصل كر سكوگے، اگر تم نے ايسا نہ كي جس كا ميں نے حكم ديا ہے تو تمہارے ہاتھ خاك ميں مل جائيں گے.
اور كرمانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
يہ فاظفر جواب ہے اور اس كى شرط محذوف ہے، يعنى: جب اس كى تفصيلات ثابت ہوگئيں تو پھر تم اسے اختيار كرو جس كى طرف راہنمائى كى گئى ہے.
اور " تربت يداك " كے معانى اور شرح ميں اختلاف كيا گيا ہے، ايك قول يہ ہے كہ: يہ اصل ميں دعاء ہے، ليكن عرب لوگ اسے انكار اور تعجب اور تعظيم اور كسى چيز پر ابھارنے كے ليے استعمال كرتے ہيں، اور يہاں بھى يہى مراد ہے.
اور اس ميں اہل دين كے ساتھ صحبت ركھنے كى ترغيب پائى جاتى ہے كہ ہر چيز ميں اہل دين كے ساتھ صحبت ركھى جائے؛ كيونكہ جس نے بھى دين والوں سے صحبت اختيار كى تو وہ ان كے اخلاق سے مستفيد ہوگا، اور ان كى طرف سے خرابى سے محفوظ رہےگا.
ديكھيں: عمدۃ القارى شرح صحيح البخارى ( 20 / 86 ).
سوم:
آپ كو علم ہونا چاہيے كہ حقيقى جمال و خوبصورتى تو باطن كى خوبصورتى ہوتى ہے، اور ظاہرى طور پر دنياورى خوبصورتى تو زائل اور ختم ہونے والى ہے، يعنى كسى بيمارى يا پھر آگ وغيرہ سے زائل ہو جائيگى يا پھر بوڑھا ہونے كى صورت ميں بھى وہ خوبصورتى نہيں رہتى.
اس ليے انسان كو وہ خوبصورتى اور جمال تلاش كرنا چاہيے جو زائل نہ ہو، بلكہ كم ہونے كى بجائے اور زيادہ ہو، وہ ايمان اور اطاعت و فرمانبردارى كے ساتھ زائد ہوتى ہے، اور اس كا اثر عورت پر اس كے اخلاق ميں ظاہر ہوتا ہے، كہ وہ خاوند كو ہى اپنا سب كچھ سمجھتى ہے اور اس كى اولاد كى اچھى تعليم و تربيت كرتى ہے.
چہارم:
يہ بھى جان ليں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كے مابين تعلقات كو مودت و رحمت كا نام ديا ہے، اور اسے محبت نہيں كہا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اس كى نشانيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اللہ نے تمہارے نفس سے ہى تمہارى بيوى كو پيدا كيا تا كہ تم اس سے سكون حاصل كرو، اور تمہارے مابين مودت و رحمت پيدا كر دى، يقينا اس ميں غور و فكر كرنے والوں كے ليے نشانياں ہيں الروم ( 21 ).
عقل و شرف ركھنے والوں كى زندگى ميں تو اصلا يہى پايا جاتا ہے، كہ نكاح كى رغبت ركھنے والے كو جب كسى نيك و صالح عورت كے بارہ ميں علم ہوتا ہے اور وہ اس كے متعلق سنتا ہے كہ يہ شادى كرنے كے لائق ہے تو وہ اس كا رشتہ طلب كرتا ہے اور اسے اس كى خوبصورتى يا پھر اس كا دين يا شرم و حياء اچھى لگتى ہے تو وہ اس سے شادى كر ليتا ہے.
يہاں يہ نہيں كہا جائيگا كہ اس نے اس سے محبت كى شادى كى ہے، اور نہ ہى اللہ تعالى نے ان كے مابين جو پيدا كرے گا اسے محبت كا نام ديا ہے، يہ لفظى اور محبت كے وجود كا انكار نہيں، بلكہ ايك انتہائى اہم معاملہ پر تنبيہ ہے وہ يہ كہ شادى بہت سارے مقاصد كے ليے مشروع كى گئى ہے جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
مثلا: عفت و عصمت كى حفاظت كے ليے، اور ايك مسلمان خاندان بنانے كے ليے، اور اولاد پيدا كرنے كے ليے.
اسى ليے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ ان كے پاس ايك شخص آيا جو اپنى بيوى كو طلاق دينا چاہتا تھا، جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس سے طلاق دينے كا سبب دريافت كيا تو اس نے عرض كيا:
وہ اس سے محبت نہيں كرتا! تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے جواب ديا:
" اور كيا سارے گھر محبت پر ہى قائم ہيں ؟!
اور ايك عورت سے جب اس كے خاوند نے دريافت كيا كہ كيا وہ اس سے بغض ركھتى ہے ؟ تو عورت نے جواب ميں كہا جى ہاں.
چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس عورت سے فرمايا:
" تم ميں كسى ايك كو جھوٹ بولنا چاہيے، اور وہ خوبصورتى اختيار كرے، كيونكہ سارے گھر محبت پر ہى نہيں بنائے جاتے، ليكن اسلام اور حسب پر معاشرت ہوتى ہے "
ميرے عزيز بھائى آپ اس ميں ذرا غور كريں، اور ان لوگوں كى مشكلات كو ديكھيں جنہوں نے دين كى بجائے صرف خوبصورتى پر شادى كى ان كى زندگى كيسے ہے، اور اس ميں كيا تنگياں اور تكليفيں اور شقاوت و بدبختى اور شكوك و شبہات پائے جاتے ہيں.
ليكن اس كے مقابلہ ميں جنہوں نے دين والى عورت سے شادى كى ان كى زندگى كى سعادت و خوشبختى كو ديكھيں كہ ان كى زندگى كتنى اچھى بسر ہو رہى ہے، اور وہ اپنى اولاد كى تربيت كيسى كر رہى ہيں.
پنجم:
آپ كے ليے ممكن ہے كہ آپ دوسرى شادى كر ليں، اور يہ بيوى بھى اپنے نكاح ميں ہى ركھيں، اور آپ كو دو چيزوں كا اختيار ہے كہ:
اول:
اپنى پہلى بيوى كو اس كے پورے حقوق ديں، اور جس طرح دوسرى بيوى كے ليے تقسيم كريں پہلى كے ليے بھى ويسے ہى تقسيم كريں، تو يہ حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے جو آپ پر واجب ہے، جيسا كہ ہم پہلے جواب ميں بيان كر چكے ہيں، اور جيسا كہ سب كو معلوم ہے كہ عوما بھى ظلم حرام ہے اور خاص كر جب دو بيوياں ہوں تو حرام ہوگا.
دوم:
آپ اپنى پہلى بيوى سے صلح كر ليں كہ وہ تقسيم ميں اپنے كچھ حقوق سے دستبردار ہو كر آپ كے نكاح ميں ہى رہے اور آپ اس كى ديكھ بھال كريں اور اسے ديكھتے رہيں، اور اس كے پاس جائيں وہاں رہيں، وہ آپ كى اولاد كى تربيت كريگى اور آپ كى عزت و مال كى حفاظت بھى كريگى.
اور ہو سكتا ہے كچھ عرصہ گزرنے كے ساتھ آپ كے احساسات ميں بھى تبديلى آ جائے اور آپ اسے پسند كرنے لگيں، اور جس طرح دوسرى بيوى كے ليے تقسيم كرتے ہيں اس كے ليے بھى اسى طرح تقسيم كرنے لگيں.
قرآن مجيد ميں بھى يہ صلح مذكور ہے، اور سنت نبويہ ميں بھى اس كى دليل ملتى ہے، اور اہل علم كى كلام ميں بھى پائى جاتى ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
اور اگر كوئى عورت اپنے خاوند سے بددماغى يا اعراض كا ڈر ہو .
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں كہ:
يہ وہ شخص ہے جو تكبر كى وجہ سے اپنى بيوى ميں كوئى ايسى چيز ديكھے جو اسے پسند نہ ہو اور وہ بيوى كو چھوڑنا چاہتا ہو تو بيوى اپنے خاوند كو كہے: تم مجھے اپنے نكاح ميں ہى رہنے دو، اور ميرے جو چاہو تقسيم كرو، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں كہ جب وہ آپس ميں راضى ہو جائيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2548 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3021 ).
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ يہ آيت اس عورت كے بارہ ميں نازل ہوئى جو ايسے شخص كے پاس ہو جو ہو سكتا ہے اپنى بيوى سے تكثير نہ چاہتا ہو اور اسے اس كى صحبت اور اولاد ہو اور بيوى اس سے عليحدہ نہ ہونا چاہتى ہو تو بيوى اسے كہے تم ميرے بارہ آزاد ہو " انتہى
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب آدمى بيوى سے ضرورت پورى كر لے اور اسے ناپسند كرنے لگے، يا پھر اس كے حقوق كى ادائيگى سے عاجز آ جائے تو اسے بيوى كو طلاق دينے كا حق حاصل ہے، اور وہ اپنى بيوى كو اختيار دے سكتا ہے كہ اگر وہ چاہے تو وہ اس كے پاس ہى رہے، ليكن تقسيم اور وطئ اور نفقہ ميں اس كا كوئى حق نہيں، يا اس ميں سے كچھ جس طرح خاوند اور بيوى آپس ميں صلح كر ليں.
اگر بيوى اس پر راضى ہو جاتى ہے تو لازم ہوگا، ليكن راضى ہونے كے بعد وہ مطالبہ نہيں كر سكتى، سنت سے اس كا ثبوت ملتا ہے اور صحيح بھى يہى ہے اس كے علاوہ جائز نہيں.
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 152 ).
پنجم:
اگر خاوند اسے اپنے نكاح ميں ركھ كر حسن معاشرت اختيار كرنے پر صبر نہيں كر سكتا، اور نہ ہى دوسرى شادى كرنے كى استطاعت ركھتا ہے، يا پھر بيوى صلح سے انكار كرتى ہے تو پھر آخرى اختيار ہى باقى رہتا ہے كہ وہ بيوى كو طلاق دے كر اسے اچھے طريقہ سے چھوڑ دے، اور اس كے پورے حقوق اس كے سپرد كرے.
اميد ہے اللہ تعالى اس كے بدلے آپ كے ليے كوئى بہتر عطا فرمائے، اور اس عورت كے ليے آپ سے اچھا خاوند نصيب كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ تعالى ہر ايك كو اپنى وسعت سے غنى كر ديگا، اور اللہ تعالى وسعت و الا حكمت والا ہے النساء ( 130 ).
اس حالت ميں طلاق نہ تو حرام ہوگى اور نہ ہى مكروہ بلكہ مباح ہوگى؛ ليكن جيسا كہ كہا جاتا ہے كہ آخرى علاج داغ لگانا ہى صحيح ہے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 9 ).
عورت كے برے اخلاق اور اس كى برى معاشرت اور سلوك كى بنا پر يا پھر يہ كہ خاوند اسے پسند نہيں كرتا طلاق مباح ہو گى. انتہى
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ اور آپ كى بيوى كے ليے وہ اختيار كرے جس ميں بہترى اور خير ہے، اور آپ دونوں كو اس كى توفيق نصيب فرمائے جس ميں اللہ راضى ہو، اور آپ دونوں كے حالات اور دلوں كى اصلاح فرمائے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
واللہ اعلم .