الحمد للہ.
اول:
مسلمان عورت كے ليے جاننا ضرورى ہے كہ اس پر شرعى پردہ كرنا فرض ہے، اور وہ ہر وقت شرعى پردہ كرنے كا التزام كرے، اور عورت كے ليے بےپردگى جائز نہيں، اور پھر پردہ نہ كرنا كبيرہ گناہ ہے جو اللہ كے عذاب اور سزا كا مستحق ٹھراتا ہے اور عورت كو ايك قيمتى جوہر ہے جيسا كہا جاتا ہے يہ ايك قيمتى ہيرا ہے جب بھى يہ لوگوں كے سامنے آ جائے اور بےپردہ ہو جائے تو وہ اپنى قيمت كھو بيٹھتا ہے.
لہذا ميں سوال كرنے والى اور ہر مسلمان عورت كو شرعى پردہ كرنے كى نصيحت كرتا ہوں، كيونكہ اسى ميں اللہ كى رضا اور خوشنودى ہے اور اس كى اطاعت و فرمانبردارى ہے، اور اللہ كى جانب سے بندے كے امور ميں آسانى و سہولت اور توفيق كا سبب ہے.
دوم:
رہا شادى كا مسئلہ تو يہ اس وقت فرض اور واجب ہو جاتى ہے جب مرد اور عورت شادى كى استطاعت و قدرت ركھتا ہو، اور انہيں فحاشى و بدكارى ميں پڑنے كا خدشہ ہو، اور پھر شادى انبياء عليہم السلام كى سنت اور طريقہ بھى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور البتہ تحقيق ہم نے آپ سے قبل بھى رسول بھيجے اور ان كى بيوياں بنائى الرعد ( 38 ).
سوم:
يہاں ايك فرق پايا جاتا ہے كہ ايك مسلمان عورت خود خاوند تلاش كرے اور اس سلسلہ ميں مردوں سے ميل جول كرے يا پھر وہ اچانك كسى سے مل پڑے، پہلا طريقہ تو شرم و حياء كے منافى ہے، كيونكہ عورت كو شرم و حياء جيسے اخلاق سے مزين ہو كر حياء كا مظاہرہ كرنا چاہيے، اور يہ چيز عورت كے جمال و خوبصورتى اور زينت ميں شمار ہوتى ہے، اور پھر كنوارى كے ليے تو يہ مثال پيش كى جاتى ہے جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك كنوارى لڑكى جو اپنے پردہ والے كمرہ ہو سے بھى زيادہ شرم و حياء والے تھے، اور جب كسى چيز كو ناپسند كرتے تو يہ ان كے چہرہ سے پہچانى جاتى تھى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5751 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2320 ).
عورت اس سے بھى بہتر طريقہ استعمال كر سكتى ہے وہ وہ يہ كہ اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كرے كہ اس كے ليے كوئى نيك و صالح شخص كے حصول ميں آسانى پيدا فرمائے، اور دعا ايك ايسا اسلحہ ہے جو مسلمان كے ليے سب سے افضل اسلحہ ہے جس سے مسلمان شخص اپنى ضروريات و حاجات بوقت ضرورت حاصل كر سكتا ہے.
اور عورت يہ بھى كر سكتى ہے كہ وہ اپنى بعض مسلمان سہيليوں سے بات چيت كرے جن پر انہيں بھروسہ ہو اور وہ امانتدار ہوں كہ وہ كسى ايسے شخص كا بتائيں جو كسى مسلمان لڑكى كو شادى كے ليے تلاش كر رہا ہو، تو يہ اس چيز سے افضل ہے كہ كوئى ايسا كام كيا جائے جو شرم و حياء كے منافى ہو.
چہارم:
جس نے آپ كو يہ نصيحت كى ہے كہ پردہ نہ كرنا پردہ كرنے سے افضل ہے بلاشك و شبہ وہ غلطى پر ہے، يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ ايك عورت اپنا پردہ اور دين چھوڑ كر اللہ كے حكم سے روگردانى كرتى پھرے كيونكہ اس كو ترك كرنا اللہ كى ناراضگى كا باعث ہے اور سزا كا مستوجب ہے اور عدم توفيق كا باعث؟
اس ليے مسلمان عورت كو چاہيے كہ وہ اس شرف و فضيلت كو تھام كر ركھے جسے اكثر مسلمان عورتيں ترك كر چكى ہيں اور پھر يہ پردہ تو مسلمان عورت كا شعار ہے، اور اس كے صدق ايمان اور تقوى كى دليل.
اس ليے ميں سوال كرنے والى بہن كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ پردہ نہ چھوڑيں بلكہ اس كا التزام كرتى رہے، اللہ تعالى اس كو ايسے خاوند سے نوازے گا جو اس كى زندگى كے معاملات ميں آسانى لائيگا، اللہ تعالى ہى مددگار ہے.
واللہ اعلم .