الحمد للہ.
اگر يہ آلات اور مشينيں سودى كاروبار اور سودى قرضے لينے يا دينے ميں استعمال كى جاتى ہيں تو پھر يہ مشينيں تيار كرنا اور انہيں ايسے افراد كو فروخت كرنا جن كے بارہ ميں معلوم ہو جائے كہ يہ سود ميں استعمال كرينگے جائز نہيں.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، يقينا اللہ تعالى بہت شديد سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).
اور يہ آلات اور مشين سودى بنك كے ليے تيار كرنا اور اسے فروخت كرنا بنك كے ساتھ اس سود جيسے كبيرہ گناہ ميں معاونت ہے، اس گناہ ميں اتنى شديد وعيد آئى ہے جو كسى اور گناہ ميں نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى رہ گيا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ايمان والے ہو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كى رسول كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ البقرۃ ( 278 - 279 ).
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور سود كى گواہى دينے والے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان اس طرح ہے:
" سود كا ايك درہم كوئى شخص كھائے اور اسے علم ہو تو يہ اللہ تعالى كے ہاں چھتيس زنا سے بھى زيادہ شديد ہے "
اسے احمد اور طبرانى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3375 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
ليكن يہ مشين اسلامى بنكوں كے ليے يا پھر سودى بنك كے ليے تيار كرنى اور فروخت كرنى جو اسے سودى كاروبار اور اعمال ميں استعمال نہ كرتا ہو، بلكہ اسے مباح اور جائز امور ميں استعمال كرے مثلا رقم لينے، يا بل وغيرہ جمع كروانے كے ليے، تو پھر اس كے ليے تيار كرنے اور فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے وہ سودى بنك ہى ہو، كيونكہ مباح امور ميں سودى بنك كے ساتھ لين دين كرنے مثلا خريد و فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس كا سود كے ساتھ كوئى تعلق نہ ہو.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہوديوں كے ساتھ لين دين اور خريد و فروخت كيا كرتے تھے، حالانكہ يہودي سود خور ہيں مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 39661 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اگر شك ہو كہ مشين كا خريدار بنك اسے كيسا استعمال كريگا، تو اس حالت ميں ظن غالب كے اعتبار سے عمل كيا جائے، اگر تو ظن غالب يہ ہو كہ وہ حرام لين دين ميں استعمال كريگا، تو پھر اس حالت ميں اس كے ليے تيار اور فروخت كرنى حرام ہے، اوراگر ظن غالب يہ ہو كہ وہ اسے مباح اور جائز امور ميں استعمال كريگا تو پھر اس كے ليے تيار كرنا اور فروخت كرنا مباح ہے.
واللہ اعلم .