الحمد للہ.
اول:
پیارے بھائی ! ہم ویب سائٹ کے منتظمین کے بارے میں حسن ظن پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں، نیز رابطہ کرنے پر بھی مشکور ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے پسندیدہ اور رضائے الہی کا موجب بننے والے اعمال کیساتھ ساتھ علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔
دوم:
مساجد کی تعمیر و ترقی اور نمازیوں کیلئے انہیں ہمہ وقت تیار رکھنا بہت ہی عظیم کام ہے، اس پر شریعت نے عظیم ثواب بھی دیا ہے، نیز یہ صدقہ جاریہ میں بھی شامل ہے جس کا ثواب اور اجر انسان کی موت کے بعد تک جاری رہے گا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
ترجمہ: اللہ کی مساجد کی آباد کاری وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ پر ، آخرت کے دن پر ایمان لائیں نماز قائم کریں، زکاۃ ادا کریں، اور صرف اللہ تعالی سے ہی ڈریں، یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔[التوبہ:18]
اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ کیلئے مسجد بنائے تو اللہ تعالی ویسا ہی محل جنت میں تعمیر فرماتا ہے) بخاری : (450) مسلم: (533) نے اسے عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
اسی طرح ابن ماجہ (738)میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص ٹٹیری کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد اللہ کیلئے بنائے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے) اس حدیث کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
ٹٹیری ایک مشہور پرندہ ہے، اور ٹٹیری کے گھونسلے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پر ٹٹیری گھونسلا بنائے اور انڈے دے، حدیث میں ٹٹیری ہی کا ذکر کیوں کیا گیا؟ جواب یہ ہے کہ ٹٹیری ہمیشہ اپنا گھونسلا درخت یا اونچی جگہ پر نہیں بناتی بلکہ تمام پرندوں سے ہٹ کر نیچے زمین پر گھونسلا بناتی ہے، اسی لیے مسجد کو اس سے مشابہت دی گئی۔
مزید کیلئے دیکھیں: حیاۃ الحیوان از دمیری
اہل علم کہتے ہیں کہ : یہ ٹٹیری کے گھونسلے سے مشابہت کی بات بطور مبالغہ کی گئی ہے، یعنی چاہے مسجد اتنی چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو۔
سوم:
مسجد میں قدرتی روشنی اور ہوا سے مستفید ہونے کیلئے گنبد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح اذان کی آواز دور دور تک پہنچانے کیلئے مینار بھی بنائے جا سکتے ہیں، یا اس لیے بھی بنائے جا سکتے ہیں کہ دور سے ہی مینار دیکھ کر نمازی مسجد کا رخ کر سکیں؛ اب چونکہ ہر کام کا حکم اس کے مقاصد کو مد نظر رکھ کر ہی لگایا جاتا ہے [اس لیے اچھے مقصد کی وجہ سے گنبد اور مینار تعمیر کرنا جائز ہے] تاہم اس پر اتنا ہی خرچہ کیا جائے جس سے مقصد حاصل ہو جائے، اور فضول خرچی سے بچیں، چنانچہ نقش و نگار سے پاک صاف سادہ مینار بنانا ہی کافی ہے، اور اگر مسجد میں مینار بنایا ہی نہ جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے استفسار کیا گیا:
"کیا مساجد میں روشنی اور ہوا کیلئے گنبد تعمیر کرنا جائز ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر سوال میں مذکور ضروریات کو سامنے رکھ کر گنبد تعمیر کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/246)
اسی طرح (6/254) میں ہے کہ:
"کچھ لوگ میناروں کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں، اور اس کو خلافِ سنت اور فضول خرچی سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مینار مسجدوں کی ایک علامت بن گئے ہیں، اور بڑی بڑی لمبی عمارتوں کے درمیان چھپی ہوئی مساجد میناروں کی وجہ سے ہی پہچانی جاتی ہیں ، اور مسجد اپنے بلند میناروں کے ساتھ بہت سے لوگوں کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ اتنے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی مسلمان ابھی بھی دین پر قائم و دائم ہیں "
تو انہوں نے جواب دیا:
"مساجد کے مینار تعمیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ مینار بنانا مستحب ہے، اس لئے کہ اس سے مؤذن کی آواز دور تک پہنچائی جاتی ہے، اور بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجدِ نبوی کے پڑوس میں موجود گھروں کی چھت پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے۔ اور مساجد میں میناروں کی تعمیر کے سلسلہ میں تمام علمائے اسلام کا اجماع ہے۔" انتہی
سوم:
مسجد میں بچھانے کیلئے قالین اور دروازے وغیرہ پر فضول خرچی سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالی فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے کہ:
"باب ہے مسجد کی تعمیر کے بارے میں:
ابو سعید کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے [اپنے دور خلافت میں]مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور کہا: لوگوں کو بارش کے پانی سے محفوظ کرو، اور لال پیلے رنگ استعمال کرنے سے بچنا اس سے لوگوں کی نمازوں میں خلل پیدا ہوگا۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک دوسرے پر فخر کرینگے اور [حقیقی]آباد کاری میں بہت ہی کم حصہ لیں گے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : تم مساجد کی ایسے ہی تزیین و آرائش کرو گے جیسے یہود و نصاری نے کی " انتہی
ابو داود (448)میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے مساجد کی تشیید کا حکم نہیں دیا گیا) ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : تم مساجد کی ایسے ہی تزیین و آرائش کرو گے جیسے یہود و نصاری نے کی۔
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
خطابی کہتے ہیں کہ: " التشييد " کا مطلب یہ ہے کہ عمارت انتہائی بلند اور لمبی چوڑی بنائی جائے۔
واللہ اعلم.