سوموار 11 ربیع الثانی 1446 - 14 اکتوبر 2024
اردو

ظہر کی نماز تاخیر سے ادا کرتے ہیں، تو کیا اکیلے نماز پڑھ لے یا ان کیساتھ ہی پڑھے؟

97516

تاریخ اشاعت : 13-03-2016

مشاہدات : 8887

سوال

 میرے علاقے میں ظہر کی نماز عصر کا وقت شروع ہونے سے صرف آدھا گھنٹہ قبل ادا کی جاتی ہے، اب میرے لیے افضل کیا ہے کہ میں ان کیساتھ با جماعت نماز ادا کروں یا ظہر کے اول وقت میں اکیلا ہی ادا کر لوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ اعمال میں اول کی وقت کی نماز بھی شامل ہے، جیسے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں ثابت ہے۔

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز اول وقت میں ادا کرنے کیلئے بھر پور کوشش کرتے تھے، اسی طرح صحابہ کرام بھی اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے، ان کا یہ عمل فرمانِ باری تعالی :
(فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ)
ترجمہ: نیکی کے کاموں میں جلدی کرو [البقرة:48]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ)
ترجمہ: اپنے رب کی مغفرت اور آسمان و زمین کے برابر چوڑائی والی جنت  کی طرف دوڑتے چلے آؤ، جسے صرف متقی لوگوں کیلئے تیار کیا گیا ہے۔[ آل عمران:133]

اس لیے آپ اپنے علاقے والوں کو نبوی طریقہ کار کے مطابق اول وقت میں نماز پڑھنے کی تلقین کریں، کیونکہ اس قدر نماز کو مؤخر کرنے سے ممکن ہے کہ نماز ضائع ہی نہ ہو جائے۔

تاہم اگر نماز اس قدر مؤخر کرنے کا کوئی عذر ہو مثلاً کوئی ضروری کام یا شدید گرمی ہوتی ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ شدید گرمی میں ظہر کی نماز کو  قدرے مؤخر کرنے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے، اور اسی کو احادیث میں "ابراد" کہا گیا ہے۔
اس بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر: (39818) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

اول وقت میں اکیلے نماز پڑھنا افضل ہے یا آخری وقت میں  جماعت کیساتھ ادا کرنا افضل ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کی متعدد آراء ہیں:

چنانچہ کچھ اہل علم آخری وقت کی با جماعت نماز کے مقابلے میں اول وقت کی تنہا نماز کو افضل کہتے ہیں۔
جبکہ کچھ اہل علم آخری وقت کی با جماعت نماز کو اول وقت کی تنہا نماز سے افضل کہتے ہیں۔
اور کچھ کی نماز دو بار ادا کرنے کی رائے  ہے تا کہ دونوں فضیلتیں مل جائیں۔

چنانچہ  حطاب رحمہ اللہ "مواهب الجليل" (1/404) میں کہتے ہیں:
"اول وقت میں اکیلے نماز ادا کرنا آخری وقت میں با جماعت ادا کرنے سے افضل ہے، انہوں نے یہی بات امام مالک رحمہ اللہ سے بھی نقل کی ہے"

اور امام نووی رحمہ اللہ المجموع (2/303) میں کہتے ہیں:
"ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسے نمازی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق دو بار نماز پڑھنی چاہیے: ایک بار تنہا اول وقت میں  تا کہ اول وقت میں نماز کا ثواب مل جائے، اور دوسری بارجماعت کیساتھ تا کہ جماعت کا ثواب مل جائے، اور اگر دونوں میں سے ایک ہی بار نماز پر اکتفا کرنا چاہے  تو آخری وقت میں جماعت ملنے کا یقین ہو تو پھر نماز با جماعت ادا کرے؛ تا کہ با جماعت نماز ادا کرتے ہوئے نماز کا شعار بھی اپنا سکے، ویسے بھی با جماعت نماز ادا کرنا ہمارے ہاں فرض کفایہ ہے، تاہم ایک وجہ [فقہی مذاہب میں جزوی موقف]کے مطابق فرض عین بھی ہے، ہمارے شافعی فقہائے کرام میں سے ابن خزیمہ بھی نماز با جماعت کو فرض عین کہتے ہیں، نیز فرضیت کا موقف امام احمد سمیت متعدد علمائے کرام کا ہے، لہذا اگر نماز با جماعت ادا کر لے تو اس طرح اختلاف ہی ختم ہو جائے گا، کیونکہ تاخیر سے جماعت کروانے پر کوئی بھی گناہ ملنے کا قائل نہیں ہے، تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اگر بہت زیادہ تاخیر ہو تو اکیلے نماز پڑھنا افضل ہے، لیکن اگر معمولی تاخیر ہو تو انتظار کر کے نماز با جماعت ادا کرے یہی افضل ہے" انتہی

بہوتی رحمہ اللہ "كشاف القناع" (1/457)  میں کہتے ہیں:
"پہلے گزر چکا ہے کہ نماز با جماعت اول وقت کی نماز سے مطلق طور پر افضل ہے؛ کیونکہ با جماعت نماز ادا کرنا واجب ہے اور اول وقت میں نماز ادا کرنا سنت ہے، جبکہ سنت اور واجب میں کوئی مقابلہ نہیں ہوتا" انتہی

ہمیں -واللہ اعلم-یہ محسوس ہوتا ہے کہ :
با جماعت نماز ادا کرنا اکیلے نماز ادا کرنے سے افضل ہے؛ کیونکہ با جماعت نماز ادا کرنے کی خصوصی فضیلت ہے، اور اس طرح اسلام کا ایک عظیم شعیرہ بھی ادا ہوگا؛ ویسے بھی اہل علم کے صحیح موقف کے مطابق نماز با جماعت ادا کرنا واجب ہے۔
تاہم اگر آپ کیلئے اتنی دیر انتظار کرنا مشکل ہو جائے تو آپ اول وقت میں اکیلے نماز ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ آپ کو جماعت کیلئے دوسرا کوئی شخص میسر نہ ہو۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات