الحمد للہ.
جی ہاں ایسا مریض دو نمازوں کو جمع کر سکتا ہے، تو اس کے لیے وہ ظہر اور عصر کی نماز جمع کرے گا، اسی طرح مغرب اور عشا کی نماز جمع کر سکتا ہے، نیز اپنی سہولت کے مطابق جمع تقدیم یا جمع تاخیر دونوں کی اجازت ہے جس میں آسانی ہو وہی کر لے؛ کیونکہ بیماری کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات دو نمازوں کو جمع کرنے کے اسباب میں شامل ہیں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے استحاضہ والی عورت جسے ماہواری کے ایام میں بھی خون آتا رہتا ہے اسے اجازت دی تھی کہ وہ دو نمازوں کو جمع کر لے۔ اس حدیث کا ذکر سنن ابو داود: (287) اور جامع ترمذی: (128) میں ہے اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔
اور استحاضہ بھی ایک بیماری ہے۔ امام احمد نے مریض شخص کے لئے دو نمازیں جمع کرنے کی دلیل یہ دی ہے کہ بیماری سفر سے زیادہ گراں ہوتی ہے، نیز انہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد سینگی لگوائی اور پھر مغرب و عشا کو جمع کر کے ادا کیا۔ ختم شد
کشاف القناع: (2/5)
نوٹ:
یہاں اس بات کو سمجھ لیں کہ جس مریض کے لئے دو نمازیں اکٹھی کرنا جائز ہو تو وہ دونوں نمازیں مکمل ادا کرے گا ، قصر نہیں کرے گا؛ کیونکہ قصر نماز صرف مسافر کے لئے جائز ہے، تو کچھ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بیماری کے باعث حالت اقامت میں نمازیں اکٹھی پڑھے تو وہ قصر بھی کرے گا ، ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قصر نماز کا ایک ہی مخصوص سبب ہے اور وہ ہے سفر، لہذا نماز سفر کے علاوہ قصر نہیں ہو گی، جبکہ ضرورت اور عذر کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، لہذا اگر لمبے یا مختصر سفر میں نماز جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہو، اسی طرح بارش وغیرہ ،بیماری وغیرہ اور دیگر اسباب کی بنا پر نمازیں جمع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ امت سے مشکلات کا خاتمہ ہو" ختم شد
مجموع الفتاوی: (22/293)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرمائے، اور انہیں صبر کے ساتھ اطمینان بھی عطا کرے، انہیں اس کا بہترین صلہ بھی نوازے۔
واللہ اعلم