جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

سودی ویزا کارڈ کے ساتھ لین دین اس عزم کے ساتھ کرنا کہ ادائیگی میں تاخیر نہیں ہو گی۔

سوال

میرا سوال ایسے کارڈ کے متعلق ہے جسے اسلامی ویزا کارڈ کہا جا رہا ہے، یہ کارڈ ہمارے علاقائی  بینک جاری کر رہے ہیں، اس کارڈ کے بارے میں کسی مفتی صاحب نے فتوی دیا ہے کہ یہ ویزا کارڈ لینا جائز ہے، بشرطیکہ اس کارڈ سے نقدی نہ نکلوائی جائے اور اس کارڈ کا استعمال صرف اشیا کی خریداری میں استعمال ہو، میں نے جب ایک بینک سے رابطہ کیا اور اس بارے میں جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے بتلایا کہ اشیا کی خریداری پر کوئی فیس نہیں ہے بشرطیکہ بینک کی رقم مقررہ قسطوں میں اسی مہینے جمع کروا دی جائے، اس کی وجہ ان کے مطابق یہ ہے کہ یہ مرابحہ ہے،  اب مجھے نہیں معلوم کہ یہ مرابحہ کیسے ہو گیا؟ کیونکہ جو سامان میں خریدوں گا وہ بینک کی ملکیت ہی نہیں ہے! جبکہ نقدی نکلوانے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جتنی بار بھی نقد رقوم نکلوائی جائیں گی اس پر اضافی رقم ادا کرنا ہو گی، میرا سوال یہ ہے کہ: اگر میں یہ کارڈ حاصل کر لیتا ہوں تو کبھی بھی اس کارڈ کے ذریعے رقم نہیں نکالوں گا، اور اگر میں کوئی چیز اس کارڈ کے ذریعے خریدتا ہوں تو اسی مہینے میں اس رقم کو لوٹا دوں گا، تو کیااس صورت میں  میرے لیے یہ کارڈ حاصل کرنا جائز ہے؟ اور کیا مجھے یہ کارڈ جاری کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کی وجہ سے گناہ ہو گا؟ کیونکہ اس معاہدے پر باطل سودی شرائط بھی مذکور ہوں گی جو کہ نقدی نکلوانے پر اضافی رقم ادا کرنے کی صورت میں ہیں، آپ میری اس بارے میں رہنمائی کریں، اللہ آپ کو اجر و ثواب سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ویزا کارڈ کے ساتھ لین دین کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں درج ذیل شرعی قباحتیں موجود نہ ہوں:

1-             ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جرمانہ یا منافع وصول کرنے کی شرط لگائی جائیں۔

2-             غیر مشمول کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقوم نکلوانے پر شرح منافع لیا جائے، تاہم اس کی حقیقی اجرت وصول کی جا سکتی ہے، جبکہ اضافی اجرت سود شمار ہو گی۔

3-             غیر مشمول کریڈٹ کارڈ کے ذریعے  سونے ، چاندی یا کرنسی کا لین دین کرنا۔

اس بارے میں اسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے قرار دادیں جاری ہو چکی ہیں اور ان میں ان تمام شرعی قباحتوں کا بھی ذکر ہے، اس کے لیے آپ سوال نمبر: (97530) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

کسی بھی سودی معاہدے میں شامل ہونا  یا اس پر دستخط کرنا جائز نہیں ہے، چاہے انسان مقررہ وقت پر ادائیگی کے لیے پر عزم ہو؛ کیونکہ یہ معاہدہ ہی حرام ہے اسے تسلیم کرنا ہی جائز نہیں ہے؛ نیز یہ بھی ہے کہ انسان بھول چوک، یا بیماری وغیرہ جیسی کسی بھی ناگہانی صورت کی بنا پر ادائیگی کرنے سے قاصر ہو سکتا ہے،  اور اس طرح وہ سود میں ملوث ہو جائے گا۔

مرداوی رحمہ اللہ "الانصاف "(4/473) میں کہتے ہیں کہ:
"[بائع اور مشتری ] دونوں کا کوئی فاسد معاہدہ کرنا ہی حرام ہے،پس اگر ایسا کیا تو اس  معاہدے کی وجہ سے ملکیت حاصل نہ ہو گی اور نہ  ایسا معاہدہ [فقہ حنبلی میں]صحیح موقف کے مطابق  نافذ العمل ہوگا" ختم شد

اس بنا پر یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ بلا ضرورت ایسے کسی معاہدے میں شامل ہوں، اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ کو مجبورا باطل شرائط پر مشتمل معاہدے پر دستخط کرنے پڑیں گے، دوسری وجہ یہ ہے کہ  اگرچہ آپ کی نیت یہ ہے کہ اس کارڈ سے نقدی نہیں نکلوائیں گے اور اس پر مرتب ہونے والی سودی رقم سے بچ جائیں گے لیکن اس کارڈ میں تو یہ صلاحیت ہے کہ آپ اس سے نقدی نکلوا سکتے ہیں، تو ایسی صورت میں انسان محتاط اقدام کرے، اپنے آپ کو کسی فتنے کے درپے نہ کرے، اور مال کا فتنہ خطرناک ترین فتنوں میں سے ہے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: ( 13735 ) ،  ( 13725 ) اور  ( 3402 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب