الحمد للہ.
تمام (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اور ظاہری )فقہی مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مستحب ہے۔
دیکھیں: "بدائع الصنائع" ( 2/325) ، "مواہب الجليل" ( 2/266) ، "المجموع" ( 5/161) ، "المغنی" ( 3/390) اور"المحلى" ( 5/120 )
ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن اہل علم سے ہم نے علم حاصل کیا ہے، ان میں سے اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے گا"
"المغنی" ( 3/391 )
جبکہ عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "عورت کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے گا" یہ اثر ان سے عبد الرزاق نے "مصنف" : (3/273) میں ذکر کیا ہے۔
اور جمہور علمائے کرام کے ہاں پانچ کپڑوں کی تفصیل یہ ہے: 1) تہہ بند، 2) دو پٹہ، 3) قمیص، 4، 5) دو لفالفے، جو میت کے ارد گرد لپیٹے جائیں گے، یہی موقف مالکی، شافعی، اور حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔
دیکھیں: "مواہب الجليل" ( 2/266) ،"المجموع" (5/162) ، "المغنی" ( 3/392)
انکی دلیل ابو داود : (3157) کی روایت ہے، جو کہ لیلی بنت قانف ثقفی سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: " میں ان خواتین میں شامل تھی جنہون نے ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت ہونے کے بعد غسل دیا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے ہمیں تہہ بند دیا، اسکے بعد قمیص، پھر دو پٹہ دیا، اور آخر میں لفافہ، اور پھر سب سے آخر میں ایک اور کپڑے کے اندر انہیں لپیٹ دیا گیا"، لیلی بنت قانف کہتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے پاس ام کلثوم کیلئے کفن کے کپڑے تھے، آپ ایک ایک کرکے وہ کپڑے ہمیں دے رہے تھے"
اس حدیث کو البانی نے "إرواء الغليل" (723) میں ضعیف کہا ہے۔
لیکن اس حدیث کا ایک شاہد بھی ہے، جسے جوزقی نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ: "ہم نے [ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو] پانچ کپڑوں میں کفن دیا، اور اسی طرح اس کا سر ڈھک دیا جیسے زندہ کا سر ڈھکا جاتا ہے"
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: "اسکی سند صحیح ہے""فتح الباری" ( 3/159)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہ اس لئے مستحب ہے کہ عورت اپنی زندگی میں مرد سے زیادہ پردے کا اہتمام کرتی ہے، اس لئے عورت کو وفات کے بعد بھی زیادہ ضرورت ہوگی"انتہی
دیکھیں: "المغنی" ( 3/391)
اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ: مرد اور عورت کو کیسے کفن دیا جائے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"افضل یہی ہے کہ مرد کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا جائے جس میں عمامہ اور قمیص نہ ہو، یہی افضل ہے، اور عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے، تہہ بند، قمیص، دوپٹہ، اور دو لفافے، اور اگر میت کو ایک ہی بڑے لفافے میں کفن دیا جائے جس میں انکا پورا جسم ڈھکا جائے تو مرد یا عورت دونوں کیلئے کافی ہے، اس لئے کہ اس میں وسعت ہے"
"مجموع فتاوى ابن باز" (13/127)
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (3/363) میں ہے کہ:
"عورت کو کفن دیتے وقت پہلے تہہ بند باندھی جائے گی، پھر اوپر والے حصے پر قمیص، اور اسکے بعد سر کے ارد گرد دوپٹہ دیا جائے گا، اور پھر دو لفافوں میں لپیٹ دیا جائے گا"انتہی
شيخ : عبد العزيز بن باز ، شيخ : عبد الرازق عفيفی ، شيخ : عبد الله غديان ، شيخ : عبد الله بن قعود
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع " میں کہتے ہیں کہ:
"عورت کے کفن کیلئے پانچ کپڑوں کے متعلق مرفوع حدیث موجود ہے، لیکن اسکی سند میں کچھ خلل ہے؛ کیونکہ اس میں ایک راوی مجہول ہے، اس لئے بعض علمائے کرام نے کہا ہے کہ عورت کو بھی اسی طرح کفن دیا جائے گا، جیسے مرد کو دیا جاتا ہے، یعنی تین کپڑوں میں ، جنہیں میت پر لپٹ دیا جائے گا۔
یہ قول حدیث کے صحیح ثابت نہ ہونے کی صورت میں اَصَح ہوگا؛ کیونکہ شرعی احکام میں اصل یہ ہے کہ مرد و خواتین میں برابری ہوتی ہے، اِلّا کہ کسی تخصیص کے بارے میں دلیل آجائے، چنانچہ جس تخصیص کے بارے میں دلیل آجائے گی اسے متعلقہ جنس [مر دیا عورت] کیساتھ خاص کرد یا جائے گا، اور بقیہ امور اصل پر قائم رہینگے، اور وہ ہے دونوں میں برابری۔
اس بنا پر ہم کہیں گے کہ: اگر عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینے والی حدیث ثابت ہوجائے تو پھر خواتین کیلئے حکم ایسا ہی ہوگا، اور اگر ثابت نہ ہو تو اصل یہ ہے کہ مرد و زن کے در میان تمام احکامات میں برابری کا معاملہ کیا جائے، الاکہ کسی کے بارے میں تخصیص کی کوئی دلیل آجائے"انتہی
"الشرح الممتع" (5/224) .