الحمد للہ.
اول:
بہت سے دلائل كى بنا پر علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق عورت پر اجنبى اور غير محرم مردوں سے چہرے كا پردہ كرنا واجب ہے، ان دلائل كا بيان سوال نمبر ( 11774 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
لڑكى كے ليے چہرے كا پردہ نہ كرنےميں والد يا والدہ كى اطاعت كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى جو كہ سب مخلوق كا خالق ہے كى نافرمانى و معصيت ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت نہيں كى جا سكتى.
اسى طرح باپ كے ليے بھى جائز نہيں كہ جب بيٹى چہرے كا پردہ كرنے كى قائل ہو وہ بيٹى كو چہرہ ننگا ركھنے كا حكم دے، چاہے وہ نقاب كرنے كو مستحب ہى سمجھتا ہو؛ كيونكہ وہ اس كى مكلف ہے جس كا اسے علم ہے، اور جس پر وہ مطمئن ہے، اور روز قيامت اسے اس كے متعلق جواب دينا ہے.
كيونكہ روز قيامت بندے كے قدم اس وقت تك ہل بھى نہيں سكتے جب تك كہ اسے اس كے علم كے متعلق يہ نہ پوچھ ليا جائے كہ اس نے اس ميں عمل كيا كيا تھا، اور اس سے اس كے والد كى رائے اور اطمنان كا سوال نہيں كيا جائيگا، اس ليے اگر وہ پردہ نہيں كرتى تو وہ اپنے پروردگار كى نافرمان ہوگى، تو اس صورت ميں اسے والد كى اطاعت كيا فائدہ دےگى.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" نافرمانى و معصيت ميں اطاعت نہيں ہے، بلكہ اطاعت و فرمانبردارى تو نيكى ميں ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7257 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1840 ).
سوم:
اگر ہم تسليم بھى كر ليں كہ مسلمان عورت كے ليے اجنبى اور غير محرم مردوں سے چہرے كا پردہ كرنا مستحب ہے، واجب نہيں تو پھر بھى والد يا كسى اور كو يہ حق نہيں كہ وہ بيٹى كو چہرہ ننگا ركھنے كا حكم دے، كيونكہ اس طرح وہ اللہ تعالى كے حكم كى مخالفت كر رہا ہے، اور پھر مسلمان شخص اپنے نفس كو اس كى اجازت كيسے دے سكتا ہے كہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اسے ايك حكم ديں، اور پھر وہ خود اس كے خلاف حكم ديتا پھرے، اور جس كا حكم اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے ديا ہے وہ اس سے منع كرے.
حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان تو يہ ہے:
اور ( ديكھو ) كسى بھى مومن مرد اور عورت كو اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے فيصلہ كے بعد اپنے امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا الاحزاب ( 36 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
سنو جو لوگ اللہ كے رسول كے حكم كى مخالفت كرتے ہيں انہيں ڈرتے رہنا چاہيے كہ كہيں ان پر كوئى زبردست آفت نہ آپڑے، يا انہيں دردناك عذاب نہ پہنچ جائے النور ( 63 ).
معاملہ اس سے بھى بہت زيادہ خطرناك ہے كہ چہرے كا پردہ كرنا اور نقاب پہننا مستحب ہے يا واجب، جو شخص بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پرعمل كرنے سے منع كرتا ہے، اسے اپنے ايمان كى خير منانى چاہيے.
ليكن بات يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے خلاف حكم دينے والے چاہے وہ باپ ہو يا كوئى اور وہ يہ تصور كرے كہ اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم آپ كى موجودگى ميں آپ كى بيٹى كو چہرے كا پردہ كرنے كا حكم ديں ـ جيسا كہ آپ اعتقاد ركھتے ہيں كہ چہرے كا پردہ مستحب ہے نہ كہ واجب ہے ـ تو كيا آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى خلاف ورزى كرينگے، يا كہ آپ يہ كہينگے كہ ميں نے سن ليا اوراطاعت كى.
يقينا ہر مومن شخص اس كے علاوہ كچھ نہيں كہہ سكتا ( ہم نے سن ليا اوراطاعت كى ) جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نےدرج ذيل آيت ميں فرمايا ہے:
ايمان والوں كا قول تو يہ ہے كہ جب انہيں اس ليے بلايا جاتا ہے كہ اللہ تعالى اور اس كا رسول ان ميں فيصلہ كر دے تو وہ كہتے ہيں كہ ہم نے سنا اور مان ليا، يہى لوگ كامياب ہونے والے ہيں النور ( 51 ).
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بلاواسطہ سنى ہوئى سنت اور ثقہ اور بااعتماد راويوں كى طرف سے ہم تك نقل كردہ سنت ميں كيا فرق ہوا.
ہم پہلى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كيوں كرتے ہيں، اور دوسرى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى اور مخالفت كيوں كرتے ہيں !!
چہارم:
جب باپ كو يہ خدشہ ہو كہ اس كے نقاب پہننے اور پردہ كرنے سے بيٹى كو اذيت اور نقصان پہنچ سكتا ہے، اور يہ خوف حقيقى ہو اور اس كے ظاہرى اسباب بھى ہوں مثلا مسلمان عورت ايسى جگہ رہتى ہو جہاں نقاب كرنے والى كے ساتھ زيادتى كى جائے، تو پھر اسے نقاب نہ كرنے كا كہنے ميں كوئى حرج نہيں، اور نقصان و ضرر كو دور كرنے كے ليے بيٹى اس ميں باپ كى اطاعت كريگى.
ليكن اگر خوف اور خدشہ خيالات اور گمان اور وسوسوں كا نتيجہ ہو جس كا حقيقت اور ظاہر امور سے كوئى تعلق نہ ہو تو پھر لڑكى كے ليے نقاب اتارنے اور پردہ نہ كرنے ميں والد كى اطاعت كرنى جائز نہيں.
پنجم:
لڑكى كو چاہيے كہ وہ اپنے والد كو نصيحت كرے، اور اسے اس پر قائل كرے كہ اسے وہى قول اختيار كرنے كى آزادى ہے جسے وہ صحيح سمجھتى ہے، چاہے وہ اس كے دلائل معلوم ہونے، يا پھر كسى ثقہ اہل علم كى بات مان كر قول اختيار كيا جائے، اور لڑكى كے ليے شرعا جائز نہيں كہ وہ صرف اس بنا پر اس قول كو چھوڑے كہ وہ اس كے والد كى رائے كے مخالف ہے.
اور اسى طرح والد كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ لڑكى پر اپنى رائے مسلط كرے، اور اسے پردہ كرنے سےمنع كر كے اسے گناہ اور معصيت كا مرتكب كرے، چاہے وہ ايك يا دو يا زيادہ بار ترك كرے، تو جب بھى وہ اجنبى اور غير مردوں كےسامنے چہرے ننگا كر كے نكلے گى وہ گنہگار ٹھرے گے.
اميد ہے كہ وہ اپنے والد كو اس پر قائل كرنے كے ليے كسى اور سے بھى معاونت اور مدد لے لے.
اميد ہے كہ اس جواب سے آپ كے سامنے واضح ہو گيا ہو گا كہ والد كو پردے كے واجب ہونے پر قائل كرنے كا مسئلہ نہيں، ہو سكتا ہے دلائل كى وضاحت اور مخفى كى بنا پر وہ قائل ہوں يا نہ بھى ہو، اور قائل كرنے كے طريقوں كے اعتبار سے بھى منحصر ہے.
ليكن جس مسئلہ پر توجہ دينے كى ضرورت ہے وہ يہ كہ لڑكى كے ليے والد كى رائے پر عمل كرنا ضرورى اور لازم نہيں، اور جس پر وہ خود مطمئن ہے اسے اپنے والد كى رائے اور اسے قائل كرنے كى وجہ سے اسےترك كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى والد كے ليے جائز ہے كہ وہ بچى پر اپنى رائے كو لازم كرے.
اور سورۃ البقرۃ حفظ كرنے تك پردہ نہ كرنے كے گناہ ميں پڑنے كا كوئى معنى نہيں، يا پھر كہ جب تك وہ بچى كے اخلاص كا يقين نہيں كر ليتا اس وقت تك وہ پردہ نہ كرے، بلكہ جب بھى بچى بےپردہ ہو كر اجنبى اور غير محرم مردوں كے سامنے نكلےگى تو وہ گنہگار ہوگى، جيسا كہ اوپر بيان بھى ہو چكا ہے.
چنانچہ جب والد اسے سمجھ لے اور بچى كو پردہ كرنے دے تو يہى مطلوب و مقصود ہے، اور اگر وہ اسے پردہ كرنے سے منع كرنے پر مصر رہے تو اصلا اس معاملہ ميں والد كى اطاعت نہ كرے جيسا كہ اوپر كى سطور ميں بيان ہو چكا ہے.
ليكن اگر بچى كو خدشہ ہو كہ باپ كى مخالفت كرنے سے والد بيمار ہو جائيگا، تو وہ باپ كے ساتھ ہونے كى صورت ميں چہرہ ننگا كر لے، ليكن جب وہ اكيلى يا والد كے علاوہ كسى اور كے ساتھ ہو تو چہرے كا پردہ كرے، اور والد كو اس كى خبر نہ ہونے دے
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق عطا فرمائے، اور ثابت قدم ركھے.
واللہ اعلم .