جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

تلسيميا كى بمارى كے شكار شخص سے شادى كرنا

98716

تاریخ اشاعت : 31-05-2013

مشاہدات : 3912

سوال

ميں آپ سے ايك مشورہ كرنا چاہتى ہوں كہ ميرے ليے ايك بااخلاق اور دين والے شخص كا رشتہ آيا ہے، اور ميں بھى بااخلاق اور دين والى ہوں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم پر اپنى نعمت ہميشہ قائم ركھے.
ہم اس شادى پر بالكل تيار تھے، ليكن شادى سے قبل ميڈيكل چيك اپ سے علم ہوا ہے كہ ہم دونوں آپس ميں موافق نہيں، كيونكہ ممكن ہے كہ ہمارى اولاد ميں سے پچاس فيصد اولاد تلسيميا كا شكار ہو، اور پچيس فيصد چانس ہيں كہ يہ بيمارى انہيں نہ لگے، اور پچيس فيصد چانس يہ ہيں كہ وہ تلسيميا كى بيمارى كا شكار ہونگے.
كيونكہ ہم دونوں كو ہى تلسيميا كى بيمارى ہے، يہ علم ميں رہے كہ اسب يمارى كے شكار شخص كو كوئى خطرہ نہيں، ليكن ممكن ہے كہ اگر وہ اس بيمارى كى شكار عورت سے شادى كرے تو يہ بيمارى اولاد ميں بھى منتقل ہو جائے.
ميرے والد صاحب نے اختيار مجھ پر چھوڑ ديا كہ ميں جو اختيار كرنا چاہوں كر سكتى ہوں، ميں پريشان ہوں كہ آيا ميرے ليے اولاد كى صحت كے مقابلہ ميں دين و اخلاق والا شخص بہتر اور افضل ہے يا كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بلاشك و شبہ نكاح كے مقاصد ميں نيك و صالح اولاد پيدا كرنا اور امت محمديہ ميں كثرت كرنا شامل ہے، جيسا كہ ابو داود كى درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:

" مجھے ايك حسب و نسب والى عورت ملى ہے ليكن وہ بانجھ ہے اولاد پيدا نہيں كر سكتى، كيا ميں اس سے شادى كر لوں؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں.

پھر وہ شخص دوبارہ آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے روك ديا، پھر وہ تيسرى بار آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو، اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ تمہارے ساتھ باقى امتوں ميں زيادہ ہونے پر فخر كرونگا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1784 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس كى تكميل اس طرح ہوگى كہ صحيح و تندرست اولاد پيدا كى جائے جو شريعت كے امور سرانجام دے سكے، اور رسالت كے كام كا بوجھ اٹھانے كى متحمل ہو.

جب عورت اور مرد كو علم ہو جائے كہ ان دونوں كى شادى اولاد ميں بيمارى كا باعث بن سكتى ہے كہ پيدا ہونے والا بچہ بيمارى والا ہو سكتا ہے تو پھر ان دونوں كے ليے بہترى اسى ميں ہے كہ وہ اس صورت ميں شادى نہ كريں، تا كہ اس متوقع فساد كو روكا جا سكے، اور امت مسلمہ ميں شر و ضرر ميں كمى كى جا سكے، اور خاوند و بيوى كو تكليف و پريشانى سے بچايا جا سكے جو انہيں مرض كا شكار اولاد كى ديكھ بھال ميں اٹھانے پڑيگى.

ہمارى اطلاع كے مطابق تو يہ ہے كہ جب خاوند اور بيوى دونوں ہى اس مرض كا شكار ہوں تو پھر ان كے ہاں پيدا ہونے والے بچہ ميں پچيس فيصد احتمال ہے كہ وہ صحيح و سالم اور تندرست ہوگا، اور پچيس فيصد بيمارى كا شكار ہوگا، اور پچاس فيصد اسب يمارى كا حامل ہوگا.

ليكن اگر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك اسب يمارى كا شكار ہو اور دوسرا صحيح و تندرست ہو تو پھ يہ خطرہ بہت ہى كم ہو جاتا ہے، كيونكہ اس حالت ميں پچاس فيصد احتمال ہے كہ بچہ صحيح و تندرست ہوگا، اور پچاس فيصد احتمال ہے كہ وہ اس مرض كا حامل ہوگا، ليكن بچہ پيدائشى طور پر اس بيمارى كا شكار نہيں ہوگا.

تجرباتى طور پر يہ احتمالات اچھے نہيں، اور مستقر نہيں كيونكہ معاملہ سارے كا سارا اللہ سبحانہ و تعالى كى تقدير كے ساتھ ہے.

اگر واقعى معاملہ ايسا ہے تو پھر آپ كے ليے كسى صحيح و تندرست شخص كے ساتھ شادى كرنا ہى بہتر ہے، اور اس كا يہ معنى نہيں كہ آپ صحيح و تندرست كو دين و اخلاق والے شخص پر مقدم كريں، جيسا كہ آپ نے اشارہ بھى كيا ہے.

مقصد يہ ہے كہ دين و اخلاق والا تندرست شخص تلاش كيا جائے، الحمد للہ يہ بہت مل جائينگے.

جب آپ اپنى اولاد كى حفاظت اور امت مسلمہ ميں اس بيمارى كى كمى اور اس كے پھيلاؤ كو روكنے كى نيت سے يہ شادى نہ كريں تو ہم اميد ركھتے ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائيگا، اور اس پر اجروثواب بھى عطا كريگا.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق عطا فرمائے اور صحيح راہ كى راہنمائى فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب