جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

نشئى كى طلاق كا حكم

98775

تاریخ اشاعت : 22-03-2012

مشاہدات : 5699

سوال

ايك شخص نشہ كرتا اور بيوى كو زدكوب كرتا رہا اور زبانى طور پر اسے كئى بار طلاق ديتا ہے، جيسا كہ وہ كہے: تجھے تين طلاقيں " اور وہ اس وقت ہوش ميں نہ ہو اور بعد ميں وہ بيوى سے صلح كر لے.
ليكن اب وہ شخص اپنے پروردگار كے سامنے توبہ كر چكا ہے اور نماز كى پابندى كرتا اور اپنے كيے پر نادم ہے، شريعت كا اس سلسلہ ميں كيا حكم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نشئى كى طلاق ميں اہل علم كا اختلاف پايا جاتا ہے جب كوئى شخص نشہ آور اشياء مثلا شراب نوشى وغيرہ كرتا ہو تو كيا اس كى طلاق واقع ہوگى يا نہيں ؟

اس ميں دو قول ہيں:

پہلا قول:

اس كى طلاق واقع ہو جائيگى، امام ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہم اللہ كا يہى قول ہے، اور امام شافعى اور امام احمد رحمہم اللہ كا بھى ايك قول يہى ہے.

ان كا كہنا ہے كہ: اس ليے كہ اس كى عقل مصيت و نافرمانى كى بنا پر عقل زائل ہوئى ہے، اس ليے بطور سزا اور عقاب اس كى طلاق واقع ہوگى كيونكہ اس نے معصيت كا ارتكاب كيا ہے.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 289 ) انہوں نے كئى ايك دلائل سے استدلال كيا ہے.

دوسرا قول:

اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى، ظاہريوں كا مسلك يہى ہے اور امام احمد اور امام شافعى رحمہما اللہ كا دوسرا قول ہے، اور امام احمد كا مستقل قول يہى ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى انہوں نے درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 ـ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تم نشہ كى حالت ميں نماز كےقريب مت جاؤ، حتى كہ جو كہہ رہے ہو اسے تم جاننے لگو النساء ( 43 ).

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے نشئ كى بات كو غير معتبر قرار ديا ہے، كيونكہ وہ جانتا ہى نہيں كہ وہ كيا كہہ رہا ہے.

2 ـ صحيح حديث ميں وارد ہے كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور زنا كا اقرار كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا شراب نوشى كى ہے ؟ "

تو ايك شخص نے اٹھ كر اس آدمى كا منہ سونگھا تو اسے شراب كى بو نہ آئى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1695 ).

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ اگر اس نے شراب نوشى كى ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے اقرار كو قبول نہ كرتے، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.

3 ـ اس ليے كہ عثمان بن عفان اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم كا قول بھى يہى ہے اور صحابہ كرام ميں اس قول كا كوئى مخالف نہيں.

امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ہے: مجنون اور پاگل اور نشئ كى طلاق نہيں، اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہا كا قول ہے: نشئ اور جبر كردہ شخص كى طلاق جائز نہيں.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: عثمان رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے اور ہمارے علم ميں كوئى بھى صحابى اس ميں ان كا مخالف نہيں.

4 ـ اس ليے كہ وہ مفقود الارادہ ہے لہذا وہ مكرہ يعنى جبر كيے گئے شخص كے مشابہ ہوا.

5 ـ اور اس ليے بھى كہ اس كى عقل زائل ہے، لہذا وہ مجنون اور سوئے ہوئے شخص كے مشابہ ہوا.

6 ـ اس ليے كہ مكلف ہونے كے ليے عقل شرط ہے اور جو سمجھ ہى نہ ركھے وہ مكلف نہيں ہوتا.

ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 32 / 252 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 18 ) الانصاف ( 8 / 433 ).

دوسرے قول كو بہت سارے اہل علم نے راجح قرار ديا ہے مثلا شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہم اللہ اور معاصرين علماء ميں سے شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہم اللہ نے يہى فتوى ديا ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

كيا نشئ كى طلاق واقع ہو جائيگى ؟

اور اگر واقع ہو گى تو كيا اس كے ظالمانہ تصرفات مثلا زنا قتل اور چورى وغيرہ پر اس كا محاسبہ اور مؤاخذہ ہوگا، اگر ايسا ہى ہے تو پھر دونوں حالتوں ميں كيا فرق ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" نشئ كى طلاق واقع ہونے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور علماء كرام كے ہاں اس كى طلاق واقع ہو جائيگى اور اس كے افعال پر اس كا مؤاخذہ بھى ہوگا، اور اس كى معصيت و نافرمانى طلاق ساقط كرنے ميں عذر ثابت نہيں ہوگى.

اسى طرح اس كے غلط افعال يعنى قتل يا چورى يا زنا وغيرہ پر اس كا مؤاخذہ كرنے ميں عذر ثابت نہيں ہوگا.

ليكن بعض اہل علم كہتے ہيں كہ نشئ كى طلاق واقع نہيں ہوگى، خليفہ راشد عثمان رضى اللہ تعالى عنہ سے يہى منقول ہے كيونكہ اس كى عقل نہيں اس ليے اس كے ان افعال پر جو دوسروں كو ضرر ديں مؤاخذہ نہيں ہوگا.

اور پھر طلاق تو اسے بھى اور اس كے علاوہ دوسرے كو بھى ضرر ديتى ہے اس ليے اس پر اس كا مؤاخذہ نہيں كيا جائيگا، كيونكہ نشئ كى سزا تو كوڑے ہيں نہ كہ اس كى سزا ميں طلاق واقع كرنا ہے.

اور اسى طرح اس كا غلام آزاد كرنا اور باقى سارے تصرفات مثلا بيع و شراء اور ہبہ وغيرہ سب باطل ہيں.

رہا اس كے اعمال پر اس كا مؤاخذہ تو ان پر اس كا مؤاخذہ كيا جائيگا، اور نشہ اس كے ليے عذر نہيں نہ تو زنا ميں اور نہ ہى چورى اور قتل ميں، اور نہ كسى دوسرے عمل ميں، كيونكہ افعال پر عاقل اور غير عاقل انسان دونوں كا مؤاخذہ كيا جائيگا.

اور اس ليے بھى كہ ہو سكتا ہے وہ نشہ كو اللہ كى حرام كردہ اشياء اور برائى ميں وسيلہ بنا لے، اور اسے دليل بنا كر برے كام كرنے لگے، اس طرح ان معاصى كے احكام ضائع ہو جائيں، لہذا اہل علم اس پر متفق ہيں كہ اس كے افعال پر اس كا مؤاخذہ كيا جائيگا.

رہا قول تو صحيح يہى ہے كہ نشئ كے قول كو نہيں ليا جائيگا، جب يہ علم ہو جائے كہ اس نے نشہ كى حالت اور مدہوش ہونے كى حالت ميں طلاق دى ہے تو طلاق واقع نہيں ہوگى، اور اسى طرح اگر نشہ كى حالت ميں اس نے غلام آزاد كر ديا تو آزاد نہيں ہوگا، يا پھر نشہ كى حالت ميں مالى تصرف كيا تو اس كو بھى نہيں ليا جائيگا، اور اسى طرح نشہ كى حالت ميں كئى گئى بيع و شراء اور وہ سب تصرفات جن كا تعلق عقل سے ہے وہ واقع اور ثابت نہيں ہونگے.

كيونكہ يہ اس كے قولى تصرفات ميں شامل ہوتے ہيں جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں، اور اعتماد بھى اسى پر ہے اور ہم اسى كا فتوى ديتے ہيں وہ يہ كہ جب ثابت ہو جائے كہ وہ طلاق كے وقت نشہ كى حالت ميں تھا تو اس كى طلاق واقع نہيں ہو گى، اس ليے كہ عقل پر پردہ تھا.

ليكن اگر وہ گنہگار نہ ہو مثلا كسى نے نشہ آور مشروب پلا ديا اور اسے علم ہى نہ تھا كہ اس ميں نشہ ہے، يا پھر اس پر جبر كيا گيا اور جبرا اسے نشہ والا مشروب پلا ديا گيا تو وہ گنہگار نہيں، اس حالت ميں سب كے ہاں طلاق واقع نہيں ہو گى؛ كيونكہ اس كا نشہ قصدا نہ تھا، لہذا اس پرعمل نہيں ہوگا بلكہ وہ مظلوم يا پھر دھوكہ ديا گيا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 29 ).

مزيد آپ الشرح الممتع ( 10 / 433 ) طبع الكتبۃ التوفيقيۃ كو بھى ديكھيں.

اس بنا پر مذكورہ بيوى كو طلاق نہيں ہوگى، ہم اللہ تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں جس نے خاوند كو توبہ كى توفيق سے نوازا، اور اسے استقامت كى راہ دكھائى، اللہ تعالى سے اپنے اور اس كے ليے ثابت قدمى كى دعا كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب