جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

مردوں كے ليے باربر شاپ كھولنے كا حكم

98822

تاریخ اشاعت : 27-10-2007

مشاہدات : 5706

سوال

مردوں كے ليے سيلون اور باربر شاپ كھولنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مردوں كى حجامت وغيرہ كے ليے باربر شاپ كھولنے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ پيشہ اختيار كرنا صحيح ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں حرام كاموں سے اجتناب كيا جائے، مثلا داڑھى نہ تو كاٹى جائے اور نہ ہى شيو كى جائے، اور نہ ہى ابرو وغيرہ بنائے جائيں، اور اسى طرح كافروں كى مشابہت ميں سر كے بال بھى نہ كاٹے جائيں.

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 34822 ) اور ( 1189 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص سوال كرتا ہے كہ:

اس كے ايك رشتہ دار كى باربر شاپ اور سيلون كى دوكان ہے جو اس نے ملازم كو كرايہ پر دے ركھى ہے، اس نصيحت كى گئى كہ يہ مال حرام ہے اور مسلمانوں كى داڑھى مونڈنا جائز نہيں، تو اس نے جواب ديا:

ميں تو ملازم سے صرف ڈيڑھ سو ريال كرايہ ليتا ہوں، اور لوگ اپنى داڑھياں منڈوانے ميں آزاد ہيں، ميں انہيں مجبور تو نہيں كرتا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر تو اس باربر شاپ ميں يہ عبارت لكھى ہوئى ہے كہ داڑھى مونڈنا حرام ہے، اور اس پر عمل بھى كيا جاتا ہے، اور جو بھى داڑھى منڈوانے آئے وہ اس سے انكار كرتا ہے تو پھر اللہ تعالى كا رزق طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اگر وہ گاہك كے كہنے پر داڑھى بھى مونڈتا ہے، اور سر كے بال بھى تو پھر يہ جائز نہيں، بلكہ اسے يہ سيلون بند كر كے اس سے كوئى بہتر كام كر لينا چاہيے، اور يہ ياد ركھے كہ جو كوئى بھى اللہ تعالى كے ليے كوئى چيز ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے.

حاصل يہ ہوا كہ: سيلون اور باربر شاپس كھولنے ميں تفصيل پائى جاتى ہے:

اگر تو انسان وہاں حرام اشياء مونڈنے سے پرہيز كرےگا تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں؛ اور يہ دوكان رزق كے اسباب ميں شامل ہے، اور اگر وہاں وہ گاہك كى مرضى كے مطابق عمل كرےگا چاہے وہ حلال ہو يا حرام تو پھر جائز نہيں " انتہى.

ماخوذ از: لقاء الباب المفتوح ( 13 / 79 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى دريافت كيا گيا:

ميرے پاس كئى ايك دوكانيں ہيں، اور ميں انہيں بعض باربر شاپ كا كام كرنے والوں كو كرايہ پر دينا چاہتا ہوں، تو كيا اس ميں كوئى حرج تو نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر آپ سيلون بنانے والوں كو دوكانيں كرايہ پر ديتے ہيں تو اس ميں حرج ہے، كيونكہ يہ تو معلوم ہى ہے كہ نائى حسب عادت ہر كام كرتے ہيں، وہ سر بھى مونڈتے ہيں، اور داڑھياں بھى، بلكہ ہو سكتا ہے ان كے پاس سر كے بال بنانے والوں سے زيادہ لوگ داڑھى منڈوانے كے ليے آئيں، غالب اور عام طور پر عادت تو يہى ہے.

اس بنا پر نائى كو اس شرط پر دوكان كرايہ پر دينى جائز ہے كہ وہ وہاں داڑھى نہ مونڈے، تو اس وقت كوئى حرج نہيں، اور جب يہ ثابت ہو جائے كہ اس نے كرايہ پر حاصل كردہ ان دوكانوں ميں داڑھى مونڈى ہے تو كرايہ كا معاہدہ ختم ہو جائيگا، كيونكہ كرايہ دار نے ايك صحيح شرط كو پورا نہيں كيا، نائى كو دوكانيں كرايہ پر دينے كا جواب يہى ہے.

يعنى باربر شاپ والوں كو دوكانيں كرايہ پر اس شرط سے دى جا سكتى ہيں كہ: وہ وہاں داڑھى نہ مونڈيں، اور نہ ہى كوئى اور حرام كام كريں، اس كى دليل يہ ہے كہ انہيں كرايہ پر دوكان دينى ان كے اس حرام فعل ميں معاونت ہوگى.

اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون مت كرو .

اور اسے كرايہ پر دينے كى حرمت پر درج ذيل فرمان نبوى بھى دلالت كرتا ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب اللہ تعالى كوئى چيز حرام كرتا ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كر ديتا ہے "

اور كرايہ اس منفعت كى قيمت ہے جو كرايہ دار اس سے حاصل كرتا ہے. انتہى.

ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب