الحمد للہ.
اللہ تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ آپ كے ليے نيك و صالح بيوى كے حصول ميں آسانى پيدا فرمائے جس سے آپ كى آنكھيں ٹھنڈى ہوں.
آپ كے سوال سے تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ لڑكى عفت و عصمت كى مالكہ ہے اور ايسے خاندان سے تعلق ركھتى ہے جو اپنى لڑكيوں كى حفاظت كرنے والا ہے.
اس كى دليل يہ ہے كہ اس لڑكى نے آپ سے بات چيت نہيں كى اور اصرار كيا ہے كہ اس كے والد سے اس بارہ ميں بات چيت كى جائے، اور پھر اس نے اپنے والد كو بھى اس كے متعلق بتا ديا ہے، اور اس كے والد كو موقف اس سے بھى سخت نكلا كہ اس نے آپ كو كہا:
جب آپ كے والدين آئيں گے اور دونوں خاندانوں ميں تعارف ہو گا تو پھر اگر آپ چاہيں تو اسے ديكھنا اور تمہارے ليے اس كا رشتہ طلب كرنا ممكن ہو سكتا ہے.
يہ موقف بالكل صحيح ہے، كيونكہ شريعت نے لڑكى كو ديكھنا مباح اس وقت كيا ہے جب اس كا ظن غالب ہو كہ وہ اس سے منگنى كريگا، اور اس كو رشتہ دے ديا جائيگا.
علامہ عز بن عبد السلام رحمہ اللہ منگيتر كو ديكھنے كے بارہ ميں كلام كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ تو صرف اس كے ليے جائز كيا گيا ہے جو واضح اور ظاہر اميد ركھتا ہو كہ اس كا رشتہ قبول كر جائيگا، اور يہ معلوم نہ ہو كہ رد كر ديا جائيگا، يا پھر اس كا ظن غالب ہو كہ اس كا رشتہ رد نہيں كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 146 ).
رہا مسئلہ لڑكى كے خاندان كے بارہ ميں جاننا تو يہ ممكن ہے كہ آپ ان كے متعلق كسى سے دريافت كريں، يا پھر اپنے والد كو كہيں كہ وہ ان كے بارہ ميں دريافت كريں، اور پھر شرعى طور پر لڑكى سے منگنى كرنے سے قبل اس كے خاندان كے بارہ ميں معلوم كرنا اور ان كے بارہ ميں مشورہ كرنا حرام نہيں ہے.
اس شخص كا آپ كو اپنے خاندان كے بارہ ميں معلومات فراہم نہ ميں آپ كو كوئى نقصان نہيں؛ كيونكہ يہاں كلام ميں اگر وہ كچھ ہو جسے وہ پسند نہيں كرتے تو يہ حرام غيبت ميں شامل نہيں ہوتى.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ علماء كے ہاں بغير كسى نزاع كے جائز غيبت كے بارہ ميں كلام كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" دوسرى قسم:
آدمى سے اس كے نكاح نكاح يا معاملات يا گواہى ـ يعنى اس كے گواہ بننے ـ كے متعلق مشورہ كرے اور اسے علم ہو كہ وہ اس كے فائدہ ميں نہيں تو اسے چاہيے كہ وہ مشورہ طلب كرنے والے كو نصيحت كرے اور اس كے سامنے اس كے حالات ركھے " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 4 / 477 ).
رہا يہ كہ آپ شرعى طور پر اس لڑكے متعلق كيسے جان سكتے ہيں ؟
اس كے بارہ ميں گزارش ہے كہ آپ كے ليے باز پرس اور سوال كرنا جائز ہے، جيسا كہ ہم بيان بھى كر چكے ہيں، اور اگر آپ اس سے منگنى كرنا چاہيں تو اسے ديكھنا بھى جائز ہے، اور اگر آپ اسے ديكھ نہ سكيں تو آپ كو اپنى كسى محرم عورت كو بھيج كر اس كے اوصاف معلوم كر لينے چاہييں جو اسے ديكھ كر آپ كے ليے اس كے اوصاف واضح كرے.
ليكن افضل يہى ہے كہ آپ خود ہى اسے ديكھيں، يا پھر اسے ديكھيں جو آپ كے ليے اس لڑكى كے اوصاف بيان كرے تا كہ آپ اس كا رشتہ طلب كرليں يا پھر اسے چھوڑ ديں؛ كيونكہ ہو سكتا ہے منگنى كر لينے كے بعد اسے ديكھنے ميں اس سے نكاح نہ كرنے كا بھى باعث بن سكتا ہے جس كى بنا پر اس لڑكى اور اس كے گھر والوں كا دل ٹوٹ جائيگا.
ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ كہ جب اس خاندان والوں كو يہ پتہ چل جائے كہ آپ لڑكا كا رشتہ طلب كرنے ميں دلچسپى ركھتے ہيں اور واقعى اس سے شادى كرنا چاہتے ہيں تو پھر وہ اپنے اور لڑكى كے بارہ ميں معلومات فراہم كرنے اور سوال كرنے ميں كوئى مانع پيدا نہيں كرينگے.
اس ليے آپ كو وہى كچھ كرنا چاہيے جو لڑكى كے والد نے آپ سے كہا كہے، پھر اس كے بعد آپ اللہ تعالى سے استخارہ كريں ان شاء اللہ اللہ رب العالمين آپ كے مقدر ميں خير و بھلائى پيدا كريگا.
رہا يہ مسئلہ كہ كيسى عورت كو اپنے ليے بطور بيوى اختيار كرنا چاہيے اور جس لڑكى كو آپ بطور بيوى چننا چاہتے ہوں اس ميں كيا صفات اور اوصاف پائے جائيں ؟
اس كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارى راہنمائى كى ہے، اس ليے مسلمان شخص كو بيوى اختيار كرتے وقت اس كا خيال كرنا چاہيے، ذيل ميں ہم اس كا خلاصہ پيش كرتے ہيں:
1 ـ وہ عورت دين والى ہو؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورت سے چار اسباب كى بنا پر نكاح كيا جاتا ہے: اس كے مال و دولت كى بنا پر، اور اس كے حسب و نسب و خاندان كى بنا پر، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى وجہ ہے، اور اس كے دين كى بنا پر، آپ كے ہاتھ خاك آلود ہوں تم دين والى عورت كو اختيار كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4802 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
يعنى جس كى بنا پر شادى كى رغبت ہوتى ہے، اور يہ چار خصلتيں ہيں جو مردوں كو اپنى طرف دعوت ديتى ہيں، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كہا كہ دين كو چھوڑ كر كسى اور صفت كى بنا پر شادى نہ كى جائے.
2 ـ وہ عورت زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں روز قيامت تمہارے زيادہ ہونے ميں دوسرے انبياء پر فخر كرونگا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
كنوارى لڑكى كے متعلق زيادہ اولاد جننے كا اس طرح معلوم كيا جا سكتا ہے كہ اس كے خاندان كى عورتيں كثرت اولاد والى ہوں تو وہ بھى كثرت اولاد والى ہوگى ان شاء اللہ.
3 ـ وہ كنوارى ہونى چاہيے، كيونكہ حديث نبوى ميں ہے:
" تو نے كنوارى لڑكى سے شادى كيوں نہ كى، تم اس سے كھيلتے اور وہ تم سے كھيلتى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5052 ).
4 ـ وہ حسب و نسب والى يعنى اصيل خاندان سے تعلق ركھتى ہو.
5 ـ خوبصورت ہو كيونكہ خوبصورت ہونے سے خاوند كے نفس كو سكون حاصل ہوگا، اور وہ اس كے ليے نظريں نيچى ركھنے كا باعث بنےگى، اور اس ميں اس كے ليے محبت و پيار بھى كامل ہونے كا باعث ہوگى، اسى ليے شريعت اسلاميہ نے عقد نكاح سے قبل اسے ديكھنا مشروع كيا ہے.
6 ـ عقل و دانش والى ہو، بےوقوف نہ ہو، كيونكہ نكاح كا معنى مستقل طور پر معاشرت ہے، پورى زندگى ساتھ رہنے كا معنى ركھتى ہے، اور پھر بےوقوف عورت كے ساتھ حسن معاشرت نہيں ہو سكتى، اور ہو سكتا ہے كہ يہى اس كى اولاد ميں بھى منتقل ہو جائے.
جواب ميں آخر ميں ہم يہ بات ضرور كہيں گے كہ آپ عورتوں كے ساتھ بات چيت كے خطرہ كى سنگينى كا احساس ركھيں كہ انٹرنيٹ وغيرہ دوسرے وسائل كے ذريعہ اجنبى عورتوں سے بات چيت اور تعلقات قائم كرنا خطرے سے خالى نہيں، كيونكہ يہ ايسا قدم ہے جس كا انجام اچھا نہيں ہے، اس ليے شيطان كى پيروى سے اجتناب كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى ہميں اور آپ كو اپنى پسند اور رضامندى والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .