الحمد للہ.
وارث کے لیے وصیت کرنا جائز ہی نہیں ہے؛ کیونکہ ابو داود: (2870)، ترمذی: (2120) نسائی: (4641) اور ابن ماجہ: (2713) میں حدیث ہے کہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بیشک اللہ تعالی نے تمام حقداروں کو ان کے حقوق دے دئیے ہیں اس لیے وارث کیلیے کوئی وصیت نہیں ہے) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
نیز یہ وصیت ورثا کی رضا مندی کے بغیر نافذ نہیں ہو گی؛ کیونکہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (وارث کیلیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے الا کہ ورثا اجازت دیں) اس حدیث کو دارقطنی نے روایت کیا ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے بلوغ المرام، میں حسن قرار دیا ہے۔
ایسے ہی ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی (6/58) میں کہتے ہیں:
"اگر میت اپنے وارث کے نام کچھ وصیت کرے اور تمام وارثین اسے تسلیم نہ کریں تو وصیت صحیح نہیں ہو گی، اس میں علمائے کرام کا اختلاف نہیں ہے۔ ابن منذر اور ابن عبد البر رحمہما اللہ کہتے ہیں: "علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے" اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے احادیث مروی ہیں چنانچہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بیشک اللہ تعالی نے تمام حقداروں کو ان کے حقوق دے دئیے ہیں اس لیے وارث کیلیے کوئی وصیت نہیں ہے) اس حدیث کو ابو داود ، ابن ماجہ، اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔۔۔ لیکن اگر تمام وارثین اسے تسلیم کر لیں تو پھر وصیت صحیح ہو گی، جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے" ختم شد
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (16/317) میں ہے کہ:
"ایک تہائی سے زیادہ وصیت جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی وارث کے حق میں وصیت صحیح ہو گی، تاہم اگر عاقل اور سمجھ دار وارثین اپنے حصے میں سے وصیت کو پورا کرنا چاہیں تو یہ جائز ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے تمام مستحقین کو ان کے حصے دے دئیے ہیں، اس لیے وارث کیلیے کوئی وصیت نہیں ہے) اس حدیث کو احمد، ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، اور دار قطنی نے روایت کیا ہے، اور دارقطنی کے الفاظ میں یہ اضافہ بھی ہے: (الا کہ وارثین چاہیں)"ختم شد
لہذا مذکورہ بالا تفصیلات کی بنا پر آپ کے دادا نے صرف نرینہ وارثوں کو وصیت کی ہے اور خواتین کو محروم رکھا تو یہ ظلم اور کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ در حقیقت یہ مال اللہ تعالی کی ملکیت ہے، جبکہ انسان کو اس مال پر صرف اختیار دیا گیا ہے کہ اس مال کو ایسے ہی استعمال میں لائے جیسے اللہ تعالی کی رضا ہو، چنانچہ وراثت کی تقسیم اللہ تعالی نے خود فرما دی ہے اور دیگر تمام افراد کو وراثت کی تقسیم میں زیادتی کرنے سے خبردار فرمایا، اور وراثت کے حصص ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ( تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ * وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ ) یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا ، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ٭ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، اللہ کی حدود پامال کرے تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کیلیے رسوا کن عذاب ہے۔ [النساء:13، 14]
اور یہ بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی ظلم اور گناہ کے کام کرے اور اس وقت تک اپنی جان اللہ کے حوالے نہ کرے جب تک ظلم، قطع تعلقی اور وارثوں کو محروم نہ کر دے!
اس لیے ورثا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ظالمانہ وصیت کو کالعدم سمجھیں اور اللہ تعالی کے حکم کے مطابق وراثت کی تقسیم کریں، نیز کسی بھی وارث کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس وصیت کو دلیل بناتے ہوئے خواتین کے حصص میں کمی کرے۔
اگر وارثین ایسا کرتے ہیں تو وہ بھی دادا کے ساتھ گناہ اور زیادتی میں شامل ہوں گے، بلکہ وارثوں کا گناہ دادا سے بھی زیادہ ہو گا؛ کیونکہ در حقیقت حقوق تو انہی وارثوں نے غصب کئے ہیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں ہدایت دے اور انہیں صحیح طریقے سے تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم.