اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بيوى زيادہ جماع كى رغبت نہيں ركھتى اس ليے خاوند كو مشت زنى كا سہارا لينا پڑتا ہے

99756

تاریخ اشاعت : 21-02-2013

مشاہدات : 17593

سوال

ميں قوى شہوت كا مالك ہوں اور روزانہ بيوى سے ہم بسترى كرنے كى رغبت ركھتا ہوں، جب بيوى سے ہم بسترى كا كہتا ہوں تو وہ نامعقول سے دلائل دے كر اور مختلف قسم كے بہانے بنا كر ايسا كرنے سے انكار كر ديتى ہے، مثلا اس كا كہنا ہے كہ وہ تھكى ہوئى ہے، يا پھر وہ غسل كرنے ميں سستى سے كام ليتى ہے، يا دوسرے دن كرنے كا كہ كر ٹال ديتى ہے.
اس ليے ہفتہ ميں صرف دو بار ہى ہم بسترى ہوتى ہے، ميں صبر نہيں كر سكتا جس كى بنا پر مجھے مشت زنى كا سہارا لينا پڑتا ہے كہ كہيں زناكارى ميں نہ پڑجاؤں، حالانكہ مجھے علم ہے كہ مشت زنى حرام ہے، ليكن اس كے باوجود ميں ہفتہ ميں تين بار مشت زنى كا مرتكب ہوتا ہوں، اور ميرى بيوى ميرے پہلو ميں ہوتى ہے، اور اسے اس كا علم ہوتا ہے.
يہ علم ميں رہے كہ ميرى بيوى بناؤ سنگھار كا خوب خيال ركھتى ہے، اور خوشبو بھى لگاتى ہے، ليكن اس ميں صرف عيب يہ ہے كہ كثرت جماع سے بھاگتى ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ميں مشت زنى كرنے سے گنہگار تو نہيں ہو رہا، اور اگر گناہ ہوتا ہے تو كيا ميرے مشت زنى كرنے كا گناہ ميرى بيوى كو بھى ہوتا ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند پر بيوى كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرنا واجب ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).

اور حسن معاشرت ميں جماع بھى شامل ہے، اور يہ بقدر كفائت خاوند پر واجب ہے، جب تك خاوند كا جسم كمزور نہ پر جائے يا پھر اسے معاش سے دور اور مشغول نہ كردے.

اور بيوى پر واجب ہے كہ جب خاوند اسے ہم بسترى كى دعوت دے تو وہ اسے قبول كرے، اور اگر وہ انكار كرتى ہے تو نافرمان شمار ہوگى؛ كيونكہ بخارى اور مسلم نے درج ذيل حديث روايت كي ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب آدمى اپنى بيوى كو اپنے بستر پر ہم بسترى كے ليے بلائے اور وہ انكار كر دے اور خاوند رات ناراض ہو كر بسر كرے تو صبح ہونے تك اس پر فرشتے لعنت كرتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1436 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بيوى پر واجب ہے كہ جب خاوند اسے ہم بسترى كے ليے بلائے تو وہ اس كى اطاعت كرے، يہ اس كے ليے فرض و واجب ہے.... اس ليے جب بيوى اس كى بات ماننے سے انكار كر دے تو وہ نافرمان اور بددماغ شمار ہوگى...

جيسا كہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

اور جن عورتوں كى تمہيں بددماغى اور نافرمانى كا ڈر ہے تو انہيں تم نصيحت كرو، اور انہيں بستر ميں چھوڑ دو اور انہيں مار كى سزا دو، اور اگر وہ تمہارى اطاعت كر ليں تو پھر ان پر كوئى راہ تلاش مت كرو . انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 145 - 146 ).

ليكن خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى پر جماع كا اتنا بوجھ ڈالے جسے وہ برداشت ہى نہ كر سكے، اور اگر بيوى بيمارى يا پھر برداشت نہ كرنے كى بنا پر جماع سے انكار كرتى ہے تو وہ گنہگار نہي ہوگى.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

لونڈى اور بيوى پر فرض ہے كہ جب اس كا مالك اور خاوند اسے ہم بسترى كى دعوت دے تو وہ اس سے انكار مت كرے، الا يہ كہ وہ حيض كى حالت ميں ہو يا پھر بيمارى ہو كہ جماع سے تكليف ہوتى ہو، يا پھر فرضى روزے سے ہو، اگر بغير عذر انكار كرتى ہے تو وہ ملعونہ ٹھرےگى " انتہى

ديكھيں: المحلى ( 10 / 40 ).

اور بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند كے ليے اپنى بيوى سے ہر وقت استمتاع كرنا اور لطف اندوز ہونے كا حق ہے، جب تك يہ چيز بيوى كو فرائض سے نہ روكے يا پھر اسے ضرر نہ دے، كيونكہ اس حالت ميں حسن معاشرت نہيں كہلائيگى، اور جب اسے فرائض سے مشغول نہيں كرتا اور روكتا نہيں اور نہ ہى اس ميں اس كے ليے نقصان و ضرر ہے تو پھر خاوند كو استمتاع كا حق ہے " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 189 ).

جس بيوى خاوند كے كثرت جماع سے ضرر ہوتا ہو وہ اپنى برداشت كے مطابق خاوند كے ساتھ معين عدد ميں جماع كرنے پر اتفاق كر لے، اور اگر وہ اس سے زائد كرے جس سے بيوى كو ضرر ہوتا ہو تو وہ اپنا معاملہ قاضى كے سامنے پيش كر سكتى ہے تا كہ قاضى خاوند كو متعين كردہ عدد كا التزام كرنے كا حكم دے.

دوم:

مشت زنى حرام ہے اس كے تفصيلى دلائل سوال نمبر ( 329 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.

بيوى كے ہاتھ سے آدمى كے ليے مشت زنى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس سے استمتاع مباح ہے، اور اسى طرح اگر شرمگاہ كے باہر انزال كر دے تو كوئى حرج نہيں كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ جو اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كرتے ہيں،، مگر اپنى بيويوں پر يا اپنى لونڈيوں پر تو يہ قابل ملامت نہيں المومنون ( 5 - 6 ).

اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 826 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

اگر بيوى كو وطئ نقصان ديتى ہو تو پھر اسے اس ميں كوئى نقصان نہيں كہ اس كا خاوند اس كے علاوہ كسى اور چيز سے استمتاع كرے، اور بيوى كے ليے لازم ہے كہ وہ خاوند كو يہ استمتاع كرنے دے.

خاوند اور بيوى كو چاہيے كہ وہ الفت و محبت كى فضا ميں اس مسئلہ كو صراحتا حل كريں، اور ہر ايك كو دوسرے كے حقوق كو پہچانے، اور اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس پر كيا واجبات ہيں، اور عام طور پر ازدواجى مشكلات پيدا ہى اس سے جہالت كى بنا پر پيدا ہوتى ہيں.

بعض خاوند ايسے ہيں جو صرف اپنى خواہش پورى كرنے كى حرص ركھتے ہيں، اور يہى نہيں بلكہ اس ميں جلدبازى بھى كرتے ہيں اور انہيں بيوى كى كوئى پرواہ نہيں، اور نہ ہى استمتاع ميں بيوى كے حق كا خيال كرتے ہيں، تو اس طرح اس ملاقات سے فائدہ ہى ختم ہو جاتا ہے، اور وہ اس سے دور ہو جاتا ہے، اور اس كے ليے يہ ہم و غم بن جاتا ہے، اور اس پر ايك بوجھ سا بن كر رہ جاتا ہے.

اس ليے ہم كہتے ہيں كہ: آپ اپنے اور بيوى كے مابين الفت اور محبت و مودت پيدا كرنے كى كوشش كريں، اور آپ بيوى كى حالت كا خيال ركھيں، اور اس كے احساسات كو سمجھيں، اور جو چيز اسے نقصان اور تكليف ديتى ہے اس سے اجتناب كريں اور دور رہيں، اور اس مسئلہ ميں شرعى حكم ہے وہ اسے بتائيں اور اس ميں بيوى كى معاونت كريں، اور اسے اس سے نفرت مت دلائيں، تو مقصد كو پا ليں گے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہميں اور آپ كو اپنى اطاعت و فرمانبردارى كرنے اور اپنى رضامندى والے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب