الحمد للہ.
دلائل سے استدلال اور احكام استنباط كرنے ميں لوگوں كى فہم اور ادراك اور قدرت ومختلف ہے، ان ميں كچھ توا يسے ہيں جن كے حق ميں تقليد جائز ہے، بلكہ بعض اوقات اس پر واجب ہو گى، اور كچھ ايسے ہيں جو دليل كے بغير عمل نہيں كر سكتے.
1 - چنانچہ وہ طالب علم جس كے ليے اقوال ميں تميز كرنى اور راجح اور مرجوح اقوال كو معلوم كرنا ممكن ہے اس كے ليے راجح پر عمل كرنا لازم ہے، جو اس كے ليے راجح ظاہر ہوتا ہو.
2 - ليكن جس ميں اس كى اہليت نہيں تو اس كے ليے تقليد ہو گى، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كر لو النحل ( 43 ).
اور وہ اس شخص كى بات مانے اور تقليد كرے جسے وہ علم و ورع اور تقوى ميں افضل ديكھتا ہو، اس كے ليے كسى معين مذہب كى اتباع اور مسلك پر چلنا لازم نہيں، چاہے وہ اس ملك كا مسلك ہو، يا نہ ہو، بلكہ اسے كتاب و سنت كى دليل ديكھ كر عمل كرنا ہو گا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى مثال اس عام آدمى كى ہے جس نے كسى شخص سے يہ كہتے ہوئے سنا: زيور ميں زكاۃ ہے، اور كسى دوسرے شخص سے يہ كہتے ہوئے سنا: زيور ميں زكاۃ نہيں، تو يہاں اس كے پاس دو رائے ہو گئيں تو وہ كس كى بات تسليم كرے اور كس كى تقليد كرے ؟
ہم كہينگے: اسے اختيار ہے، ليكن اسے چاہيے كہ وہ اس كى بات مانے جو اس عالم كے ورع و تقوى كى بنا پر اقرب الى الصواب ہو اس پر چلے " انتہى
ديكھيں: شرح الاصول من علم الاصول ( 637 ).
لہذا عامى شخص دلائل ميں اجتھاد نہيں كريگا، ليكن وہ كسى ايسے شخص سے اخذ كرنے اور لينے ميں كوشش اور جدوجھد كريگا جو تقوى و ورع اور علم ميں يد طولى ركھتا ہو.
شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس طرح مجتھد كے ليے اكٹھى دو دليلوں كى اتباع كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى بغير اجتھاد كيے اور بغير ترجيح ديے دونوں ميں سے كسى ايك كى اتباع كرنى جائز نہيں، اسى طرح عامى شخص كے ليے بھى دو مفتيوں كى اكٹھى اتباع كرنى، اور نہ ہى بغير ترجيح اور اجتھاد كے كسى ايك كى اتباع كرنى جائز ہے...
اور جب بھى ہم مقلدين كو يہ اختيار دے ديں كہ وہ ائمہ كے مذاہب سے جو انہيں اچھا لگتا ہے وہ چن ليں، تو اختيار ميں ان كے ليے اتباع شہوات كے علاوہ كوئى مرجع نہيں بچےگا، اور يہ چيز وضع شريعت كے مقصد كے منافى اور مخالف و مناقض ہے " انتہى
ديكھيں: الموافقات ( 4 / 131 ).
اور خطيب بغدادى رحمہ اللہ " الفقيہ و التفقہ " ميں كہتے ہيں:
اگر كوئى قائل يہ كہے: اگر عام مستفتى يعنى سوال دريافت كرنے والے كو دو مفتى مختلف فتوى ديں تو كيا اس كے ليے تقليد جائز ہے ؟
كہا جائيگا: اگر تو عامى شخص كى عقل ميں اتنى وسعت ہے، اور اس كى فہم مكمل ہے كہ جب وہ سوچ و بچار كرے تو تو اس كى عقل ميں آ جائے، اور جب وہ سمجھايا جائے تو سمجھ جائے، تو وہ دو مختلف مسلك اور مذہب والوں سے دريافت كر سكتا ہے، اور ان كے مسلك اور ان كے دلائل كے متعلق دريافت كرے پھر اس كے نزديك جو راجح ہو اسے لے لے.
ليكن اگر اس كى عقل اس سے قاصر ہو، اور اس كى فہم مكمل نہيں، تو اس كے ليے ان دونوں ميں سے افضل مفتى كى تقليد جائز ہے " انتہى
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
مذاہب اربعہ كى تقليد اور ہر حالات اور دور ميں ان كے اقوال كى اتباع كرنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
اول:
مذاہب اربعہ چاروں اماموں كى طرف منسوب ہيں: يعنى امام ابو حنيفہ، امام مالك، امام شافعى، اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ جميعا.
حنفى مذہب امام ابو حنيفہ كى طرف، اور مالكى مذہب امام مالك كى طرف، اور شافعى مذہب امام شافعى كى طرف، اور حنبلى مذہب امام احمد بن حنبل كى طرف منسوب ہے.
دوم:
ان اماموں نے فقہ كتاب و سنت سے اخذ كى، اور يہ سب اس ميں مجتھد تھے، اور مجتھد كا اجتھاد صحيح بھى ہو سكتا ہے اور غلط بھى، اگر اس كا اجتھاد صحيح ہو تو اجتھاد اور صحيح ہونے كااسے ڈبل اجر ملتا ہے، اور غلط ہو تو اسے اجتھاد كا اكہرا اجر ملتا ہے، اور وہ اپنى غلطى معذور ہوگا.
سوم:
كتاب و سنت سے استنباط كرنے كى استطاعت اور قدرت ركھنے والا شخص كتاب و سنت سے اسى طرح اخذ كريگا اور لے گا جس طرح اس سے پہلوں نے ليا ہے، اور جس ميں وہ حق كا اعتقاد ركھتا ہے اس ميں اسے تقليد جائز نہيں، بلكہ اسے وہ حق لينا ہو گا، اور جس سے وہ عاجز ہو اور اس كى ضرورت ہو اس ميں تقليد جائز ہے.
چہارم:
جسے استنباط كرنے كى قدرت و استطاعت نہ ہو اس كے ليے اس كى تقليد كرنا جائز ہے جس پر اس كا دل مطمئن ہو، اور جب اس كے دل ميں عدم اطمنان ہو تو اسے مسئلہ دريافت كرنا چاہيے حتى كہ اسے اطمنان ہو جائے.
پنجم:
اوپر جو بيان ہوا ہے اس سے يہ واضح ہوا كہ ہر حال اور ہر دور ميں ان كے اقوال كى پيروى نہيں كى جائيگى؛ كيونكہ ہو سكتا ہے ان سے غلطى ہو گئى ہو، بلكہ ان كے اقوال ميں سے جو حق ہے اور اس كى دليل ملتى ہے، اس كى اتباع ہو گى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 28 ).
اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:
" جو كتاب و سنت سے احكام استنباط كرنے كا اہل ہو، اور اس پر اسے قوت حاصل ہو، چاہے فقھى ثروت سے جو ہميں سابق علماء اسلام سے ملى ہے اس كى معاونت سے ہى ہو تو اس كے ليے ايسا كرنا جائز ہے؛ تا كہ وہ اس پر عمل كرے، اور اس كے ساتھ فيصلے كرے، اور لوگوں كو فتوى دے.
اور جو اس كا اہل نہ ہو، ت واسے امانتدار اور موثوق قسم كے علماء كرام سے دريافت كرنا چاہيے تاكہ مذاہب اربعہ ميں سے بغير تعقيد كے ان كى كتب سے حكم معلوم كرے اور اس پر عمل كر لے، لوگ ان چار كى طرف ان كى شہرت اور ضبط كتاب اور اس كے پھيل جانے اور اس كى تسہيل كى بنا پر رجوع كرتے ہيں.
اور جو كوئى يہ كہے كہ متعلمين پر مطلقا تقليد واجب ہے تو وہ غلطى پر ہے، اور جامد ہے، اس نے متعلمين پر عموما سوء ظن كيا ہے، اور جس ميں وسعت تھى اس ميں تنگى پيدا كى ہے.
اور جو كوئى تقليد كومشہور مذاہب اربعہ ميں محصور كرتا ہے وہ بھى غلط ہے، اس نے بغير كسى دليل كے وسعت ميں تنگى كى ہے، امى كے ليے ائمہ اربعہ وغيرہ كے فقھاء ميں سے كسى فقيہ ميں كوئى فرق نہيں مثلا: لليث بن سعد اور اوزاعى وغيرہ دوسرے فقھاء برابر ہيں.
اور كسى انسان كا يہ دعوى كہ وہ صرف اس پر عمل كريگا جس پر فقھاء كا اتفاق ہے، اس كو ديكھا جائيگا: اگر تو وہ اجماع كو ليتا ہے، اور استنباط كى اہليت ہونے كى بنا پر اختلافى مسائل ميں اجتھاد كرتا ہے تو يہ ممكن ہے.
ليكن اگر وہ اس كى اہليت نہيں ركھتا اور كسى مذہب كو نہيں ليتا، يا كسى عالم كى تقليد نہيں كرتا، تو اس كا معنى ہے كہ وہ اكثر مسائل ميں جاہل رہےگا؛ اس ليے كہ اختلافى مسائل كى بنسبت اجماع والے مسائل بہت كم ہيں.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
احكام شريعت كى معرفت كے دور طريقے ہيں:
اول:
استطاعت و قدرت ركھنے والے شخص كا انہيں كتاب و سنت كے دلائل سے استباط كرنا.
دوم:
جو خود استنباط نہيں كر سكتا اور دلائل سے استنباط كرنے سے عاجز ہے ا سكا اہل علم سے دريافت كرنا، اور ان كے اقوال پر عمل كرنا، اور اس وقت وہ سب سے زيادہ عالم اور ورع و تقوى كے مالك كى تقليد كرے، اور اس كے ليے كسى معين مذہب يا سب مسائل ميں كسى معين شخص كى اتباع لازم نہيں "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 41 ).
واللہ اعلم .