روزے كي حكمت
ہمارے رب جل وعلا كےناموں ميں سےايك نام ( الحكيم ) بھي ہے، وہ جو بھي حكم كرتا اور تقدير بناتا اور جس چيز سےبھي منع كرتا ہےاس ميں حكيم ہے اور كوئي نہ كوئي حكمت ضرور ہوتي ہے، لھذا ہمارا رب كوئي بھي فيصلہ حكمت كےبغير نہيں كرتا چاہے وہ فيصلہ كوني ہويا شرعي، بعض اوقات تواللہ تعالي اس كي حكمت پر مخلوق كو مطلع كرديتا اور اس كي خبر دے ديتا ہے، اور كبھي ان ميں كوئي بھي اس حكمت كي اطلاع نہيں ركھتا اور بعض اوقات بعض حكمت پر مطلع ہوتےہيں اور بعض اس سے محروم رہتے ہيں.
بہر حال ہر حالت ميں بندے پر واجب ہےكہ اللہ تعالي نےجو بھي شرعي اور قدري احكام مقرر كيےہيں ان ميں اپنےرب اور مولا كے سامنے سرخم تسليم كرے چاہےاس كي حكمت اس پر مخفي ہي كيوں نہ ہو، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالي كا فرمان ہے:
{كسي بھي مومن مرد اور عورت كو اللہ تعالي اور اس كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم كےفيصلہ كےبعد اپنےكسي بھي معاملہ ميں كوئي اختيار باقي نہيں رہتا} الاحزاب ( 36 )
اللہ تعالي كےان اوامر ميں جن كي حكمتوں ميں سے اللہ تعالي نے كچھ نہ كچھ حكمتوں كو ظاہر كيا ہے روزہ بھي شامل ہے، اس ليے روزے كي كئي قسم اور انواع كےفائدے ہيں، ان ميں ظاہري فوائد بھي ہيں اور باطني بھي، فردي فوائد بھي ہيں اور اجتماعي بھي، اور پھر روزے كےفائدے كي گواہي تو عقل سليم اور فطرت مستقيم بھي ديتي ہے، ذيل كي سطور ميں ہم ان فوائد ميں سے چند ايك فوائد كا ذكر كرتےہيں:
1 - اللہ تعالي كا تقوي اور پرہيز گاري پيدا ہونا:
اللہ تعالي كا فرمان ہے:
{اے ايمان والو! تم پر بھي اسي طرح روزے فرض كيے گئےہيں جس طرح تم سےپہلےلوگوں پر فرض كيے گئےتھے، تا كہ تم تقوي اختيار كرو} البقرۃ ( 187 )
2 - نفس كونيچا كرنا : سير ہو كر كھانا پينا اورعورتوں سےمباشرت نفس كو اكڑ اور غفلت اور شرارت پر انگيخت كرتا ہے.
3 - ايك حكمت يہ بھي ہےكہ غوروفكر اور ذكر كےليے دل كوخلوت حاصل ہوتي ہے، اس ليے كہ ان شھوات كےتناول سے دل سخت اور اندھا ہوكر غوروفكر اور ذكر اور بندے كےمابين حائل ہوتا ، اورغفلت كودعوت ديتا ہے، اور كھانےپينےسےباطن خالي ہو تو دل منور ہوتا اور اس ميں رقت پيدا كركے سختي كوزائل كرتا اورذكر وفكر كےليے خالي كرديتا ہے.
4 - اور ايك حكمت يہ بھي ہےكہ: روزہ خون كےگردش والي رگوں ميں تنگي پيدا كرتا ہےخون كےجريان كي جگہ جو كہ شيطان كےسرايت كي جگہ ہيں، اور شيطان ابن آدم ميں اس طرح سرايت كرتا ہےجس طرح خون كي گردش ہے، توروزے كي بنا پر شيطاني وسوسے ختم ہوجاتےاور شھوت وغضب ميں كمي واقع ہوجاتي ہے، اسي ليے نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے روزے كوڈھال قرار ديا ہے كہ وہ نكاح كي شہوت ختم كرديتا ہے.
5 - روزے كے فوائدميں تقويت ارادہ بھي شامل ہے، لھذا جو كوئي بھي بھوك اور پياس كي تكليف برداشت كرتےہوئےاس پر صبر كرتا ہے، اور روزے كےوقت جنسي تعلقات كي بيخ كني كركے اسے ايسي قوت ارادي حاصل ہوتي ہے جس كي بنا پر وہ اپنےنفس كولگام دينےكےقابل ہوجاتا ہے اور وہ نفس كا اسير بن كرمادي اورنقصان دہ شھوات كي طرف مائل نہيں ہوتا.
6 - روزے كےفوائد ميں عادت كے كنٹرول كوكمزور كرنا بھي شامل ہے، بعض لوگوں پر عادت كا اتنا سخت كنٹرول ہوتا ہےكہ اگر انہيں كي عادت سے كھانا كچھ دير ليٹ ہو جائے تو بھوك كي وجہ سےان كااخلاق ہي بگڑ جاتا ہے اور وہ اول فول بكنا شروع كرديتےہيں، اور بعض اوقات تواس كي چائے، قھوہ اور سگرٹ نوشي كي عادت تو اپنےگھر والوں پر كھانےكي عادت سےبھي زيادہ كنٹرول ركھتي ہےايسے لوگ اپني عادات كےاسير شمار ہوتےہيں، لھذا روزہ انسان كو اپني بري اور گندي عادات پر كنٹرول كرنےكي تربيت ديتا ہے.
7 - روزے كےفوائد ميں سےيہ بھي ہےكہ: غني اور مالدار اپنےاوپر اللہ تعالي كي نعمت كي قدر كوپہچان ليتا ہےكہ اللہ تعالي نےاس كےمقدر ميں وہ كچھ ركھا ہےجوبہت سےفقراء كونہيں ديا مثلا وافر كھانا پينا اور نكاح وغيرہ كي سہوليات سےانہيں محروم ركھا ہے، لھذا مالدار شخص كوايك مخصوص اور كچھ دير كےليے ان اشياء سے ركنےاور مشقت كےحصول سےوہ لوگ ياد آجاتے ہيں جنہيں مطلقاان اشياء سے محروم ركھاگيا ہے، اور اس كےليے مالداري اور غنا جيسي نعمت كا شكرادا كرنا واجب كرتي ہے، اور اسےاپنےمحتاج اور ضرورت مند بھائي كي ہر ممكن مدد اور خيرخواہي كرنے كي دعوت ديتي ہے.
8 - روزے كي حكمت ميں مالدار وغني اور فقير لوگوں كےمابين مساوات وبرابري بھي شامل ہے، يہ روزہ ايك اجباري فقر ہے جواسلام نےسب مسلمانوں پر فرض كيا ہےتا كہ سب لوگ اپنےباطن ميں برابر ہوں ، يہ ايسا اجباري فقر ہے جس سے انساني نفس كوعملي طريقہ كےساتھ شعور حاصل ہوتا ہےكہ صحيح مساوات اس وقت ہے جب شعور ميں سب لوگ برابر اور متساوي ہوں، يہ نہيں كہ جب شعور ميں ايك دوسرے سے مختلف ہوں تو مساوات قائم ہوتي ہے، بلكہ مساوات تويہ ہےكہ جب وہ ايك ہي درد اور تكليف محسوس كريں يہ نہيں كہ جب وہ متعدد اور كئي قسم كي رغبات ميں ايك دوسرے سے تنازع كرتےپھريں.
9 - رمضان المبارك كےروزے كا ايك فائدہ يہ بھي ہےكہ: اس ميں اجتماعي طور پر اللہ تعالي كي عبادت كا اظھار ہوتا ہے، اس ليے آپ مشرق سے ليكر مغرب تك سب مسلمانوں كواس ماہ مبارك كا روزہ ركھنےميں مجتمع ديكھيں گے، حتي كہ وہ لوگ جن سے بعض دوسري مخالفات سرزد ہوتي ہيں وہ بھي اس ماہ ميں مسلمانوں كےساتھ ہي روزہ ركھتےہيں، جب رمضان المبارك آتا ہے تو وہ بھي اپنےمسلمان بھائيوں كےساتھ روزہ ركھنےميں شريك ہوتےہيں، لھذا آپ ان ميں كسي كو بھي روزہ كےبغير نہيں ديكھيں گےحتي كہ معصيت و گناہ كرنےوالا شخص - اللہ كي پناہ - اعلانيہ طور پر كھانےپينے كي استطاعت نہيں ركھتا، بلكہ كافر شخص بھي مسلمانوں كےسامنےاعلانيہ طور پر كھانےپينے كي استطاعت نہيں ركھتا، اس ميں كوئي شك نہيں كہ اس علامت ميں كئي ايك فوائدہيں، جن ميں سےچندايك يہ ہيں:
روزہ ايك سري اور مخفي عبادت ہونےكےباوجود اس ميں اللہ تعالي كي عبادت كا اظھار پايا جاتا ہے.
اس ايماني فضا ميں توبہ كركےاللہ تعالي كي طرف رجوع كرنےوالے شخص كےليے فرصت اورموقع پايا جاتا ہےكہ وہ توبہ كركےاللہ كي طرف كرلےكتنےہي اشخاص كےليے يہ ماہ مبارك ھدايت كي طرف جانےكا نقطہ آغاز بنا ہے.
اس ميں كافر اور گنہگار شخص ميں ذلت وپستي كا شعورپيدا ہوتا ہے جواسے اپني موجودہ حالت سےنفرت دلاتا ہے.
يہ بھي ہےكہ مسلمانوں پراس عبادت ميں آساني وسھولت پيدا ہوتي ہے، اس ليے كہ سارا معاشرہ ہي روزہ ركھتا ہےجس كي بنا پر بندے كےليے اس عظيم عبادت كي بجا آوري ميں آساني پيدا ہوتي ہے.
10 - روزے كےفوائد ميں نفس كو امانت كي حفاظت كرنےكي تربيت ملتي ہے، اس ليےكہ جو شخص اللہ تعالي كي امانت اور اس كےاحكام كا خيال كرتا ہواور قوي ہو وہ اپنےاعمال ميں قوي ہوگا، اور اس كےعلاوہ اللہ تعالي نے جو عمل بھي اسےكرنا كا حكم ديا ہواس پر وہ امين ہوگا.
اور جو شخص اللہ تعالي كي عظيم امانت اللہ تعالي كي شريعت اور قانون واحكام ميں خيانت كرتا ہو وہ دوسرے كاموں ميں بدرجہ اولي خيانت كرےگا، اور جو كوئي بھي قوت ارادہ اورپختہ اور سچے عزم پرايمان اوراجروثواب كي نيت سے پورا مہينہ تربيت حاصل كرتا رہےتو وہ شخص عہد كي پاسداري كرنےوالا، اور نرم مزاج اور ارادہ كا پختہ ہوگا. ديكھيں: صفوۃ الآثار للدوسري ( 3 / 101 )
سب سے عجيب بيان يہ كيا جاتا ہےكہ ايك كافر مسلمانوں كا اس طرح آزماتا كہ انہيں روزہ ركھنےاور اللہ تعالي كےبارہ ميں خيانت كرنےكا اختيار ديتا اور جولوگ روزہ نہ ركھتےانہيں مزدوري زيادہ ديتا ليكن جب ماہ رمضان ختم ہوجاتا تومعاملہ بالكل برعكس كرديتا كہ روزے داروں كو مزدوري ڈبل ديتا اور روزہ نہ ركھنےوالوں كي تنخواہ ميں يا تو كمي كرديتا يا پھر انہيں ملازمت سے ہي برطرف كرديتا اور انہيں صراحتا يہ كہتا كہ انہوں نےاپنےدين سے خيانت كي ہے! . ديكھيں: صفوۃ الآثار للدوسري ( 3 / 103 ) .
11 - اس كےعلاوہ روزے كےطبي فائدے بھي بہت ہيں، روزہ اللہ تعالي كےحكم سے روزے دار كو بہت سي بيماريوں سے بچاتا ہے، اس كےمتعلق ريسرچ كرنےوالے ڈاكٹر مصطفي الحفار كہتےہيں: جديد علمي ريسرچ نےيہ ثابت كرديا ہےكہ روزے كے بہت سے فوائد ہيں، فرانس ميں غذائي امراض اور اس كےعلاج كےمتعلق ريسرچ كےخصوصي ادارے نےاپنےمريضوں كومكمل ايك ماہ كےروزے ركھوائےاور اسے رمضاني علاج كا نام ديا، يہ سب كچھ انہوں نےروزے اور جسم كے سب اعضاء پر اس كےفوائد كي تحقيق اور ريسرچ كرنے كےبعد يہ طريقہ علاج اختيار كيا جس كي چند مثاليں ہم ذيل ميں ديتے ہيں:
دل: روزہ دل كي دھڑكنوں كو منظم كرتا اور عمليہ ہضم كےوظائف كو راحت ديتا ہے.
خون: روزہ خون ميں كسٹرول، تيزابيت اور چربي وغيرہ كو صاف كرديتا ہے.
جگر: جگر كےبہت سےكام اور كئي ايك خصائص ہيں جوبغيركسي تكليف كےكرتا ہے، اور ہاضمہ ميں موانع اوراس كےزہر كےباوجود بغير كسي تنگي كےمواد حيوي تيار كرتا ہے .
معدہ: چند يوم مسلسل روزےركھنےسے ہضمي غدے ختم كرديتا ہے .
روزہ انسان كو موٹاپے، شوگر، جوڑوں ميں بولي تيزابيت ختم ہونے سے پيدا شدہ روماٹيزم، اور گردے كي پتھري، اور كسٹرول اور شريانوں ميں بلڈ پريشرزيادہ ہونےاور سرو دماغ اور آنكھ ، دل اور گردے ميں اس كا زيادتي سےبچاؤ كرتا ہے.
ديكھيں: روح الدين الاسلامي تاليف: عفيف طبارۃ ( 490 - 491 ) .
اور جب بعض مريضوں كےليے روزہ ركھنا مشكل تھا اور اس ميں مشقت تھي تو اللہ تعالي نے ان كےليے روزہ نہ ركھنا مباح كرديا اور اسي طرح مسافر كا بھي يہي حال ہےاس كےبارہ ميں اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:
{اور تم ميں سے جو كوئي بھي مريض ہو يا مسافر تووہ دوسرے ايام ميں گنتي پوري كرے} البقرۃ ( 184 )
شريعت نے روزے ميں آساني اور عدم مشقت كو مد نظر ركھا ہے، اور اسي ليے ابتدائےاسلام ميں يہ تھا كہ روزے دار افطاري سےقبل اگر سوجاتا تو وہ دوسرے دن بھي بغير كھائےپيے روزہ مكمل كرےگا، پھر اللہ تعالي نے اپنے بندوں پر رحم كرتےہوئے اسے منسوخ كرديا جيسا كہ مندرجہ ذيل حديث سے واضح ہوتا ہے:
براء بن عازب رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ محمد صلي اللہ عليہ وسلم كےصحابہ ميں سے جب كوئي روزہ ركھ ليتا اور افطاري كا وقت ہونےپر بغير كھائے پيےسوجاتا تو اس رات اور اگلے دن شام تك كچھ نہ كھاتا، قيس بن صرمہ انصاري رضي اللہ تعالي عنہ روزے سےتھے جب افطاري كا وقت ہوا تو بيوي كےپاس آئے اور كہنےلگےكيا كھانےكو كچھ ہے؟ بيوي نےجواب ميں كہا نہيں ليكن ميں جا كركہيں سےآپ كےليے ڈھونڈ لاتي ہوں
قيس رضي اللہ تعالي عنہ نےسارا دن كام كيا ہوا تھا اور انہيں نيند نے آليا جب ان كي بيوي آئي اور انہيں سويا ہوا ديكھ كركہنےلگي تيرے ليے ناكامي ہو، جب نصف دن گزرا تو ان پر غشي طاري ہوگئي، تو يہ واقعہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے ذكر كيا گيا تو يہ آيت نازل ہوئي:
{روزے كي راتوں ميں تمہارے ليے بيوي سے ملنا حلال كرديا گيا ہے} البقرۃ ( 187 )
توصحابہ كرام كو بہت زيادہ خوشي ہوئي تو يہ آيت نازل ہوئي:
{كھاؤ پيئو حتي كہ تمہارے ليے فجر كا سفيدا دھاگہ سياہ دھاگےسے ظاہر ہو جائے پھر رات تك روزہ مكمل كرو} البقرۃ ( 187 )
نعمت اسلام پر اللہ تعالي كا شكرہے، ہم اللہ تعالي سے دعا گو ہيں كہ وہ ہمارے ليے اسلام كي نعمت كو ہميشہ كےليے ركھےاور اپنا شكر كرنے كي توفيق عنائت فرمائے، اور ہمارا خاتمہ بالخير كرے، اللہ تعالي ہي زيادہ جاننے والا اور بہت حكمت والا ہے، وصلي اللہ علي محمد وعلي آلہ وصحبہ وسلم.