بدھ 27 ربیع الثانی 1446 - 30 اکتوبر 2024
اردو

قربانی کے احکام

تاریخ اشاعت : 22-04-2018

مشاہدات : 9259

قربانی کے احکام

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله محمد وآله وصحبه وبعد :

سب تعریفات اس اللہ وحدہ لاشریک کے لائق ہیں  ، اوراللہ تعالی کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام پر اس کی رحمتیں ہوں ۔

اما بعد :

جب قربانی ایک ایسی عبادت ہے اوردین اسلام کے عظیم شعائر میں سے شعارہے جس میں ہم اللہ تعالی کی توحید اوراپنے اوپر اللہ تعالی کی نعمتوں اوراپنے باپ ابراھیم علیہ السلام کی اپنے رب کی اطاعت فرمانبرداری کی یاد دھانی کرتے ہیں ، اوراس میں بہت ہی زيادہ خیروبرکت ہے ، توپھر مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس معاملے کا اہتمام کرتے اوراس کی شان وشوکت کی تعظیم کرے ، اسی چيز کومدنظر رکھتے ہوئے ذيل میں ہم اس عظيم اسلامی شعائر کے بارہ میں مختصر سا نوٹ ذکر کرتے ہیں :

قربانی : یا اضحیۃ  : عید الاضحی کی نماز کے بعد سے ایام تشریق کے آخری دن تک  ( تیرہ ذی الحجہ کی شام تک )  چوپائیوں  ( اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری ) میں سے کوئي ایک اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے – اس علاقہ جہاں پرقربانی کرنے والا رہائش پذیر ہو -  قربانی کی نیت سے جانورذبح کرنے کو اضحیۃ یا قربانی کہا جاتا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{تواللہ تعالی کے لیے نماز ادا کر اورقربانی کر} سورۃ الکوثر

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{آپ کہہ دیجئے یقینا میری نماز اورمیری قربانی اورمیری زندگی اورمیرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئي شریک نہیں ، اورمجھے اسی کا حکم دیا گيا ہے }الانعام ( 162 ) ۔

اس آیت میں نسکی کا معنی  میری قربانی ہے ۔

اورایک مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

{اورہم نے ہر امت کے لیے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ تعالی کا نام لیں جو اللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہیں ، سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والے کوخوشخبری سنادیجئے} الحج ( 34 ) ۔

اکثر اہل علم کے مطابق قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے  ( اوربعض علماء کرام نے اسے واجب قرار دیا ہے اس کی تفصیل آگے بیان کی جارہی ہے ) اوراصل میں تویہ قربانی زندہ شخص اوراس کے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کے وقت کے اندر مطلوب ہے ، اورقربانی کرنے والے کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ زندہ یا فوت شدگان میں سے جسے چاہے اس کے ثواب میں شریک کرلے ۔

اوررہامسئلہ فوت شدگان کی جانب سے قربانی کرنے کا تواس میں یہ ہے کہ اگر فوت ہونے والے شخص نے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تواس کےایک تہائي مال سے قربانی کرنی واجب ہوگي یا پھر اگر اس نے اپنی وقف کردہ چيز میں قربانی بھی رکھی ہوتوپھر بھی اس وقف سے قربانی کرنا واجب ہوگي ۔

لیکن اگر فوت ہونےوالے  شخص نے نہ تووصیت ہی کی اورنہ ہی وقف میں قربانی کرنے کا کہا ہو اورانسان فوت شدگان کی جانب سے قربانی کرنا چاہے تویہ بہتر ہے اوراسے میت کی جانب سے صدقہ شمار کیا جائے گا ، لیکن سنت یہ ہے کہ انسان اپنے اہل وعیال میں سے زندہ اورفوت شدگان کواپنی قربانی میں شامل کرے اورذبح کرتے ہوئے کہے کہ اے اللہ یہ میری اورمیرے گھر والوں کی جانب سے ہے ، اور ہر میت کی جانب سے علیحدہ علیحدہ قربانی کرنے  کی کوئي ضرورت نہيں  ۔

اورعلماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ قربانی کا جانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا جانور کی قیمت صدقہ کرنے سے بہتر اورافضل ہے ، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی ذبح فرمائي اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم افضل اوراولی وبہتر کام ہی سرانجام دیتے تھے ، امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد رحمہم اللہ کا مسلک یہی ہے ۔

قربانی کی فضیلت اورکونسی قربانی افضل ہے :

ایک شخص اوراس کے گھر والوں کی طرف سے ایک بکرا یا چھترا کفا‏ئت کرجاتا ہے اس کی دلیل ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کی مندرجہ ذيل حدیث ہے :

وہ بیان کرتے ہیں کہ : ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک شخص اپنی اورگھروالوں کی جانب سے ایک بکری ذبح کرتا اوراسے وہ خود بھی کھاتے اوردوسروں کو بھی کھلاتے تھے  ) اسے ابن ماجہ اورامام ترمذی رحمہما اللہ نے روایت کیا اورصحیح کہا ہے ۔

جن جانوروں کی قربانی کا ذکر نص میں ملتا ہے ان میں اونٹ ، گائے ، بھيڑ بکری شامل ہیں ، اورعلماء کرام کا کہنا ہے کہ سب سے افضل قربانی اونٹ کی ہے ، اس کے بعد گائے ، اوراس کے بعد بکری  کی ، اوراس کے بعد اونٹ یا گائے کی قربانی میں حصہ ڈالنا ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جمعہ کے بارہ میں مندرجہ ذيل فرمان ہے :

( جوکوئي اول وقت میں جائے گویا کہ اس نے اونٹ کی قربانی کی  )

امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ تعالی نے بھی یہی کہا ہے ، تواس طرح بکرا ودنبہ ، مینڈھے کی قربانی اونٹ یا گائے  میں حصہ ڈالنے سے افضل ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : مینڈھے کی قربانی افضل ہے اوراس کےبعد گائے اوراس کے بعد اونٹ کی قربانی افضل ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دومینڈھے ذبح کیے تھے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم افضل کام ہی کرتے تھے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی خير خواہی کرتے ہوئے اولی اختیار کرتے تھے اورامت کومشقت میں ڈالنا پسند نہیں فرماتے تھے  ۔ شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی کے فتوی سے لیا گيا ۔

گائے اوراونٹ کے سات حصے ہوتے ہیں لھذا مندرجہ ذیل حدیث  کی بنا پراس میں سات اشخاص شریک ہو سکتے ہیں:

جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ہم نے حدیبیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات آدمیوں کی جانب سے اونٹ اورسات ہی کی جانب سے گائے ذبح کی تھی ۔

اورایک روایت کے الفاظ ہیں : ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ اورگائے میں سات سات افراد شریک ہوجائيں  ۔

اورایک روایت کے الفاظ ہیں : توگائے سات اشخاص کی جانب سے ذبح کی جاتی تھی اورہم اس میں شریک ہوتے ۔ صحیح مسلم ۔

قربانی کا حکم :

قربانی دین اسلام کا ایک شعار اورعلامت ہے ، جواہر الاکلیل شرح مختصر خلیل میں مذکور ہے کہ :

جب کسی علاقے کے باشندے قربانی کرنا چھوڑ دیں تواس بنا پران سے لڑائی جائے گي کیونکہ یہ دین اسلام کا ایک شعار اورعلامت ہے ۔

دیکھیں : رسائل فقھیۃ للشیخ ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی  صفحہ نمبر ( 46 ) ۔

علماء کرام اس کے حکم کے بارہ میں دوقسموں میں تقسیم ہوتے ہیں :

ا – علماء کرام کا ایک گروہ تواسے واجب قرار دیتا ہے ان میں امام اوزاعی ، للیث ، امام ابو حنیفہ ، اورامام احمد کی ایک روایت شامل ہيں ، اورشیخ ا لاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کا بھی ایک قول یا ظاہر مذھب یہی ہے ۔

اس قول کے قائلین کے دلائل مندرجہ ذيل ہیں :

1- اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{پس تواپنے رب کے لیے نماز ادا کر اورقربانی کر} سورۃ الکوثر

اوریہ فعل امر ہے اورامر وجوب کا متقاضی ہے ۔

2- صحیحین وغیرہ میں جندب رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس نے بھی نماز عید کی ادائيگی سے قبل قربانی کرلی اسے چاہیے کہ وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اورجس نے ذبح نہيں کی وہ اللہ تعالی کا نام لے کر ذبح کرے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3621 ) ۔

3-   ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جواستطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے نزدیک نہ آئے ) مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے  اسے صحیح کہا ہے اورفتح الباری میں ہے کہ اس کے رجال ثقات ہیں ۔

ب  - علماء کرام کا دوسرا گروہ کہتاہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے ، امام شافعی کا مسلک یہی ہے ،اور امام مالک ، اور امام احمد سے مشہورہے ، لیکن اس قول کے بہت سے قائلین کا کہنا ہے کہ طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کےلیے ایسا کرنا مکروہ ہے ۔

اس قول کے قائلین کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

1- سنن ابوداود کی مندرجہ ذيل حدیث :

جابررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی کی نماز ادا کی اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نماز سے فارغ ہوئے تودو مینڈھے لائے گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں ذبح کرتے ہوئے کہا :

بسم اللہ واللہ اکبر ، اے اللہ یہ میری جانب سے اورمیری امت میں سے قربانی نہ کرنےو الے کی جانب سے ہے ۔

دیکھیں : سنن ابوداود بشرح محمد شمس الحق عظیم آبادی ( 7 / 486 ) ۔

2- امام بخاری کے علاوہ محدثین کی ایک جماعت کی روایت کردہ حدیث :

( تم میں سے جو بھی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی  قربانی کے وجوب اورسنت مؤکدہ دونوں کے اقوال ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :

دلائل تواس کے موافق ہونے کے قریب ہیں اوراحتیاط کےراستے پرچلتے ہوئے قربانی کرنے کی استطاعت ہونے پر قربانی ضرور کرنی چاہیے اوراسے چھوڑنا نہيں چاہیے کیونکہ قربانی کرنے میں اللہ تعالی کی تعظیم اوراس کا ذکر ، یقینا بری الذمہ بھی ہوا جاتا ہے ۔

دیکھیں :  رسائل فقھیۃ صفحہ نمبر ( 50 ) ۔

قربانی کی شروط :

1- قربانی کا جانور مطلوبہ عمر کا ہونا ضروری ہے ۔

دودانتا ( دودانت والا ہونا ) مینڈھا چھ ماہ ، اوربکرا ایک سال ، اورگائے دوس سال اوراونٹ پانچ برس کا ہونا ضروری ہے ۔

2- عیوب و نقائص سے مبرا ہو یعنی اس میں کوئي عیب نہ پایا جائے :

کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( چار قسم کے جانورقربانی کےلائق نہيں  ، آنکھ کی بیماری والا جانور جس کی بیماری واضح ہو ، بیمارجانور جس کی بیماری واضح ہو ، اورلنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو ، اورکمزور جانور جس کا گودہ ہی نہ ہو  ) یہ روایت صحیح ہے دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 886 )

اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے عیوب ہیں جن کی بنا پرقربانی کرنا مکروہ ہے لیکن قربانی کرنے میں ممانعت نہيں بنتے :

( کٹے ہوئے سینگ اورکان والے  ) اورپھٹے ہوئے کان والے ۔۔ الخ  لیکن یہ یاد رکھیں کہ قربانی کرنا اللہ تعالی کا تقرب ہے اوراس ک قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کی جاتی ہے ، اوراللہ تعالی بہت ہی پاکیزہ ہے اوروہ پاکیزہ چيز کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں فرماتا ، اورپھر جوکوئي بھی اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے یہ اس کے دل  کے تقوی کی بنا پر ہے ۔

3- قربانی کے جانور کوبیچنے کی حرمت :

جب کسی جانورکے قربانی کرنے کی تعیین کرلی جائے یا اسے خرید لیا جائے تواس کوفروخت کرنا جائز نہیں اورنہ ہی اسے ھبہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے اچھے جانور سے بدلا جاسکتا ہے ، یعنی اگر اس سے بہتر اوراچھا جانورذبح کرنا ہوتو پھر کوئي حرج نہيں ، اوراگر قربانی کے جانور نے کوئي بچہ جنم دیا ہو تو اسے بھی اس کے ساتھ ہی ذبح کیا جائے گا ، اوراسی طرح ضرورت کے وقت اس جانور پرسواری بھی کی جاسکتی ہے ۔

اس کی دلیل بخاری اورمسلم شریف کی مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کواپنا اونٹ ہانکتے ہوئے دیکھا توفرمانے لگے : اس پرسوار ہوجاؤ

وہ شخص کہنے لگا : یہ توقربانی کے لیے ہے  تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری بار بھی اسے یہی کہا کہ سوار ہو جاؤ ۔

4- قربانی کے جانورقربانی کے وقت میں ہی ذبح کرنا :

قربانی کا وقت نما‏ز عید اورخطبہ  کے بعد سے لیکر ایام تشریق کے آخری دن کے سورج غروب ہونے تک ہے ، نہ کہ نماز عید اورخطبہ کے وقت کے داخل ہونے کے بعد بلکہ نماز عید کی ادائيگی اورخطبہ سننے کے بعد شروع ہوتا ہے ، اورذی ا لحجہ کی تیرہ 13 تاريخ کے غروب شمس تک رہتا ہے اورتیرہ تاريخ ہی ایام تشریق کا آخری دن ہے ۔اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :

( جس نے بھی نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرلی وہ قربانی دوبارہ ذبح کرے ) ۔اسے امام بخاری اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے ۔

اورعلی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

عیدالاضحی اوراوراس کے تین دن بعد قربانی کرنے کے ایام ہیں ۔

حسن بصری  ، عطاءبن ابی رباح ، امام ا وازعی ، امام شافعی ، رحمہم اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے اورابن منذر رحمہ اللہ نے بھی یہی اختیار کیا ہے ۔

قربانی کے گوشت کیا کیا جائے ؟

-  قربانی کرنے والے کے لیے  سب سے پہلے خود کھانا مستحب ہے جب اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو تو وہ پہلے خود کھائے کیونکہ حدیث میں ہے :

( ہرشخص اپنی قربانی میں سے کھائے ) یہ حدیث صحیح ہے ، دیکھیں : صحیح الجامع حدیث نمبر ( 5349 ) ۔

اوراہل علم کا قول ہے کہ نماز عید اورخطبہ کے بعد کھانا چاہیے ، ان میں علی ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہم ، امام مالک ، امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ شامل ہيں ، اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

بریدہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر میں کھانے کے بغیر نہيں نکلتے   تھے اوراورعیدالاضحی کے دن قربانی کرنے سے قبل نہيں کھاتے تھے ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے  ، دیکھیں : المشکاۃ المصابیح  ( 1 / 452 ) ۔

-  قربانی ذبح کرنے میں افضل تو یہ ہے کہ قربانی کرنے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ، لیکن اگر وہ نہيں کرسکتا وہ اس کے لیے کسی دوسرے سے ذبح کرنا بھی مستحب ہے ۔

-  ابن مسعود اورابن عمررضي اللہ تعالی عنہم کہتے ہیں کہ :

  قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا مستحب ہے ، ایک تہائي کھانے کے لیے ، اورایک تہائی تحفہ اورھدیہ دینے کے لیے ، اورایک تہائي صدقہ کرنے کے لیے ۔

اور جیسا کہ علماء کرام اس پرمتفق ہیں نہ توقربانی کا گوشت بیچنا جائز ہے اورنہ ہی اس کی چربی ، اورکھال وغیرہ ، اورصحیح حدیث میں ہے کہ :

جس نے اپنی قربانی کی کھال بیچ ڈالی اس کی قربانی ہی نہيں ۔

اسے صحیح الجامع میں حسن قرار دیا گیا ہے دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 6118 ) ۔

اوراس پر بھی اتفاق ہے کہ قصائي کو بھی اس میں سے بطور اجرت کچھ نہیں دیا جائے گا ، کیونکہ علی رضي اللہ تعالی عنہ ببیان کرتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں قربانی کے جانوروں کی نگرانی کروں اوران کے گوشت ، کھالوں  اورجھول  کوصدقہ کردوں اورذبح کرنے والے قصائي کواس میں سے کچھ بھی نہ دوں ، اوروہ کہتے ہیں ہم اسے اپنی جانب سے دیتے تھے ۔ متفق علیہ ۔

ایک مسئلہ :

اگر کوئی مسلمان شخص قربانی کرنا چاہے تواسے ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد کن اشیاء سے اجتناب کرنا ہوگا ؟

سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جو کوئي بھی قربانی کرنا چاہے اوراس کا قربانی کا ارادہ ہو  توچاند نظر آنے کے بعدقربانی ذبح کرنے تک اسے اپنے بال ، اورناخن وغیرہ نہيں کٹوانے چاہیيں کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اورتم میں سے کسی ایک کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ قربانی ذبح کرنے تک  اپنے بال اورناخن نہ کاٹے  ) ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ :

وہ اپنے بال اورچمڑے وغیرہ میں سے کسی کو بھی نہ چھوئے  ۔ امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اسے چارسندوں سے روایت کیا ہے  دیکھیں صحیح مسلم ( 13/ 146 ) ۔

اورراجح قول کے مطابق یہاں امر وجوب اورنہی تحریم کے لیے ہے ، کیونکہ امر مطلق ہے اورنہی مجرد ہے ان دونوں کے لیے کوئي بھی صارف نہيں یعنی کسی اورمعنی کی طرف لے جانا والا نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کراپنے بال وغیرہ کاٹ لیتا ہے اس پر فدیہ نہيں ہوگا بلکہ وہ اللہ تعالی سے توبہ واستغفار کرے اوراس کی قربانی صحیح ہوگی ۔

اوراگر کسی شخص کو ضرورت کی بنا پربال وغیرہ کاٹنے پڑیں تواس کا باقی رہنا اس کے لیے نقصان دہ ہو مثلا ناخن ٹوٹ جائے اوراسے تکلیف دیتا ہو تو اس حالت میں اسے کاٹنا جائز ہوگا یا پھر کوئی زخم ہوجائے اوراس پرسے بال صاف کرنا پڑیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہيں ، کیونکہ یہ محرم سے بھی عظیم نہيں حالانکہ محرم کے لیے بھی احرام کی حالت میں اذیت کی بنا سر منڈاوانا جائز ہے ۔

اورچاند نظر آنے کے بعد مرد وعورت کے لیے سردھونے میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منڈوانے اور کٹوانے سے منع فرمایا ہے ، اوراحرام کی حالت میں بھی غسل کرنے کی اجازت ہے تویہاں بھی کوئی مانع نہيں ۔

اورقربانی کرنے والے شخص کے بال وغیرہ نہ منڈوانے میں حکمت یہ ہے کہ جب کچھ اعمال میں احرام والے کے مشابہ تھا یعنی قربانی کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا وغیرہ تواسی لیے اسے بھی اس کے کچھ احکام دے دیئے گئے ، اوراسی طرح وہ قربانی کرنے تک اپنے بالوں اورناخنوں کی حفاظت اس امید سے کرتا ہے کہ اللہ تعالی اسے مکمل طور پرآگ سے آزادی عطا فرمادے ۔ واللہ اعلم ۔

اور چاند نظر آنے کے بعداگر کسی کوئی  قربانی کرنے کا ارادہ نہ بھی رکھتا ہو تواپنے ناخن وغیرہ کٹوالے اوربعد میں اس کا قربانی کرنے کا ارادہ بن جائے تواسے اسی وقت بال وغیرہ کٹوانے سے بازآجانا چاہیے۔

اوروہ عورتیں جو چاند نظر آنے کے بعداس لیے اپنے بھائی یا بیٹے کوقربانی کرنے میں وکیل مقرر کرتی ہیں کہ اپنے بال کاٹ سکیں ان کا ایسا کرنا صحیح نہیں ، کیونکہ یہ حکم قربانی کرنے والے ساتھ خاص ہے یعنی وہ شخص جس نے قربانی خریدی ہے ، چاہے وہ کسی اورکو قربانی کرنے میں وکیل مقرر کردے ، اوروکیل کویہ نہیں شامل نہیں وہ اپنے بال وغیرہ کٹوا سکتا ہے کیونکہ یہ نہی توصرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ حدیث میں بھی ہے  ، لیکن جوکوئی کسی دوسرے کی جانب سے وصیت کے طور پریا بطور وکیل ہو اسے یہ نہی شامل نہيں ۔

پھر یہ  ظاہرا تواس کے ساتھ ہی خاص ہے جو قربانی کرنے والا ہے اس کے بیوی بچوں کو شامل نہیں لیکن اگر ان میں سے کسی ایک کی خاص قربانی ہو تووہ نہیں کاٹ سکتا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آل کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے اوران سے یہ منقول نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں سے کسی ایک کوبھی بال وغیرہ کٹوانے سے منع فرمایا ہو ۔

اورجس نے قربانی کرنی ہو اوربعد میں اس کا حج کرنے کا ارادہ بن جائے تواحرام باندھتے وقت وہ اپنے بال وغیرہ نہیں کٹوا سکتا کیونکہ یہ ضرورت کے وقت سنت ہے ، لیکن اگر وہ حج تمتع کرنا چاہتا ہو توپھر عمرہ کرنے کے بعد اپنے سے بال منڈوا یا چھوٹے کروا سکتا ہے کیونکہ یہ توعمرے کا حصہ ہے۔

مذکورہ بالا محظورات یا ممنوعہ اشیاء وہ ہیں جو قربانی کرنے والے پر ممنوع ہے اورمندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہیں ، لھذا قربانی کرنے والے پر خوشبو لگانی بیوی سے ہم بستری کرنا ، اورسلے ہوئے کپڑے پہننا حرام نہیں بلکہ یہ سب کچھ جائز ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔

مزید مسائل وغیرہ دیکھنے کے لیے آپ ویب سائٹ پر قربانی  کےمتعلق سوالات پر کلک کریں ۔