سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

ملك سے باہر جاتے وقت پردہ نہ كرنے كا حكم

تاریخ اشاعت : 10-03-2008

مشاہدات : 7820

سوال

باہر كے ملك جا كر والدہ كى بات مانتے ہوئے پردہ نہ كرنے كا حكم كيا ہے، والدہ يہ دليل ديتى ہے كہ ميرے پردہ كرنے سے لوگوں كى نظريں ان كى جانب اٹھتى ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ اور آپ كى علاوہ كسى بھى دوسرى عورت كے ليے كفار كے ممالك ميں بےپردگى اختيار كرنى جائز نہيں، اور نہ ہى مسلمان ممالك ميں رہتے ہوئے بےپردگى اختيار كرنا جائز ہے، بلكہ اجنبى اور غير محرم مردوں سے پردہ كرنا واجب ہے، چاہے مرد مسلمان ہوں يا كافر، بلكہ كفار كے معاملہ ميں تو زيادہ شدت سے پردہ كرنا چاہيے، كيونكہ ان ميں تو ايمان كى رمق تك نہيں جو انہيں اللہ تعالى كے حرام كردہ سے روكے.

اسى طرح آپ يا كسى دوسرے كے ليے اللہ تعالى اور اس كے حرام كردہ فعل ميں والدين كى اطاعت كرنى جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب مبين ميں فرمايا ہے:

اور جب تم نبى كى بيويوں سے كوئى چيز طلب كرو تو پردہ كے پيچھے سے طلب كرو، يہ ان كے اور تمہارے دلوں كے ليے پاكيزگى كا باعث ہے الاحزاب ( 53 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے اس آيت كريمہ ميں يہ بيان فرمايا ہے كہ عورتيں غير محرم مردوں سے پردہ كريں، يہى پردہ كرنا سب كے دلوں كى پاكيزگى كا باعث ہے.

اور سورۃ النور ميں فرمان بارى تعالى ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

اور چہرہ تو سب سے بڑى زينت ہے.

ماخذ: فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز - ماخوذ از: مجلۃ الحسبۃ عدد نمبر ( 39 ) صفحہ نمبر ( 14 )