جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

عورت كے ليے چھوٹى قميص كے نيچے پتلون پہننے كا حكم

تاریخ اشاعت : 16-02-2008

مشاہدات : 15132

سوال

كيا ميرے ليے كھلى اور چوڑى پينٹ ( پتلون ) اور اس كے اوپر ٹخنوں سے ایک بالشت تك لمبى قمیص پہننى جائز ہے، جس ميں كوئى شگاف وغيرہ نہ ہو اور نہ ہى باريك اور تنگ ہو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

غير محرم مردوں كے سامنے جو لباس عورت پہن كر آسكتى ہے اس ميں آٹھ شروط كا ہونا ضرورى ہے، شروط درج ذيل ہيں:

1- وہ لباس سارے جسم كے ليے ساتر یعنی سارے جسم كو چھپانے والا ہو، جس ميں ہاتھ اور چہرہ بھى شامل ہيں

2- وہ لباس كھلا اور واسع ہو، جو نہ تو جسم كے اعضاء كا حجم واضح كرتا ہو، اور نہ ہى جسم كے خد و خال واضح کرے۔

3- باريك نہ ہو كہ جلد كى رنگت واضح كرتا پھرے۔

4- وہ لباس خود بھی زينت کا باعث نہ ہو، مثلا اس پر كڑھائى اور كشيدہ كارى كى گئى ہو۔

5- اس لباس كو خوشبو نہ لگائى گئى ہو۔

6- وہ لباس مردوں كے لباس كى مشابہ نہ ہو۔

7- وہ لباس كافر عورتوں كے لباس سے مشابہ نہ ہو۔

8- لباس شہرت حاصل کرنے کا باعث نہ ہو۔

دیکھیں: "آداب الزفاف"از: البانى رحمہ اللہ ( 177 ) اور "حجاب المراۃ المسلمۃ" از: البانى رحمہ اللہ ( 19 - 111 ) اور "عودۃ الحجاب" ( 3 / 145 - 163 )۔

اس بنا پر عورت كے ليے مردوں كے سامنے پينٹ ( پتلون ) يا پائجامہ پہن كر آنا جائز نہيں ہے۔

شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميرى رائے تو يہ ہے كہ مسلمانوں کو نت نئے اسٹائلش ملبوسات كے پیچھے نہيں بھاگنا چاہيے جو اِدھر اُدھر سے مسلمانوں ميں آ رہے ہيں؛ اور ان ملبوسات ميں بہت سے تو اسلامى لباس كے شايان شان نہيں، اسلامى لباس مكمل ساتر ہوتا ہے، جبکہ يہ لباس مختصر ، يا پھر تنگ اور بہت زيادہ باريك ہوتے ہیں، اس ميں پتلون اور پينٹ بھى شامل ہے، كيونكہ يہ عورت كى ٹانگوں كا مكمل حجم ظاہر كرتى ہے، اور اسى طرح پيٹ اور پہلو بھى واضح کر دیتی ہے، چنانچہ پينٹ شرٹ پہننے والى عورت درج ذيل صحیح حديث کا مصداق بنتی ہے، نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جہنمیوں كى دو قسمیں ہيں جنہيں ميں نے[ابھی تک] نہيں ديكھا، ايك وہ قوم جن كے ہاتھوں ميں گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے وہ اس سے لوگوں كو مارينگے، اور [دوسری قسم]وہ لباس پہننے والى ننگى عورتيں جو خود مائل ہونے والى اور دوسروں كو مائل كرنے والى، ان كے سر بختى اونٹوں كى مائل كوہانوں كى طرح ہونگے، وہ نہ تو جنت ميں داخل ہونگى اور نہ ہى جنت كى خوشبو ہى پائیں گى، حالانكہ جنت كى خوشبو بہت ہی دور کی مسافت سے پائى جاتى ہے " انتہى، مسلم :( 2128 )

ماخوذ از: "مجموع فتاوى شيخ ابن عثيمين"

شيخ عبد الرزاق عفيفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب عورت پتلون اور پينٹ پہن كر اوپر مكمل لباس پہنے جو اس كو چھپا كر ركھے تو اس ميں مردوں سے مشابہت نہيں ہوتى جب تك پينٹ اور پتلون نيچے پہن ركھى اور اوپر لمبى قميص وغيرہ ہو " انتہى

ماخوذ از: فتاوى شيخ عبد الرزاق عفیفى صفحہ نمبر ( 573 )

اصل يہ ہے كہ خواتین کا لباس پورے جسم کو ڈھانپ کر رکھےجس سے عورت كے قدموں کا ظاہری حصہ بھی ڈھک جائے، اس كى دليل ترمذى: (1731)، نسائى: (5336)، ابو داود:(4117) اورابن ماجہ :(3580)كى درج ذيل حديث ہے:ابن عمر رضى اللہ عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:( جس نے بھى تكبر كے ساتھ كپڑا لٹکایا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں) تو ام سلمہ رضى اللہ عنہا نے عرض کیا: "تو پھر عورتيں اپنى لٹكتى ہوئى چادروں كا كيا كريں ؟" تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:( وہ ايك بالشت تك اسے ٹخنوں سے نيچے لٹكا كر ركھيں)وہ كہنے لگیں:" پھر تو ان كے پاؤں ننگے ہو جايا كرينگے "رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:( تو پھر وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اور اس سے زيادہ نہیں)

البانى رحمہ اللہ نے "صحيح سنن ترمذى" ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے۔

باجى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ام سلمہ رضى اللہ عنہا كا عورت كا اپنے کپڑے کو ايك بالشت تک لٹكانے كے متعلق يہ كہنا كہ: " پھر تو عورت كے پاؤں ننگے ہوا كرينگے "اس سے ا نكى مراد يہ تھى كہ اتنا كپڑا اسے ڈھانپنے كے ليے ناكافى ہے؛ كيونكہ جب وہ تيز چلے گى تو پیچھے كپڑا كم ہونے كى بنا پر اس كے پاؤں ننگے ہو جايا كرينگے، اور جب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كا علم ہوا تو آپ نے فرمايا:" تو پھر وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كرے، اس سے زيادہ نہيں " انتہى

ماخوذ از: "المنتقى"

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

"عورت كے ليے كپڑے لمبے ركھنا مستحب ہے يا كہ واجب ؟ اور كيا اگر كپڑے چھوٹے ہوں تو پاؤں ميں جراب پہن لينا كافى ہے كيونكہ اس سے پنڈلى نظر نہيں آئے گی؟ اور عورت ايك ہاتھ يا گز كپڑا لمبا كس طرح ركھے، آيا ٹخنوں سے ايك ہاتھ نیچے يا كہ گھٹنے سے ایک ہاتھ نیچے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

" مسلمان عورت سے مطلوب يہى ہے كہ وہ مردوں سے اپنا سارا جسم چھپا كر ركھے، اسى ليے اس كے ليے ايك ہاتھ كپڑا نيچے لٹكانے كى رخصت دى گئى ہے كہ اس كے پاؤں بھى ننگے نہ ہوں، حالانكہ مردوں كو ٹخنوں سے نيچے كپڑا لٹكانے سے منع كيا گيا ، جو اس بات كى دليل ہے كہ عورت سے مطلوب يہى ہے كہ وہ اپنا سارا جسم چھپا كر ركھے۔ اور جب وہ جرابيں بھى پہنتى ہے تو يہ پردے ميں احتياط اور اضافہ كا باعث ہے، يہ اچھا ہے، چنانچہ جرابیں پہننے کے باوجود بھی عبایا لمبا ہی ہوگا"اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى

"المنتقى من فتاوى شيخ الفوزان" ( 5 / 334 )

حاصل کلام يہ ہوا كہ:

عورت كے ليے لازم ہے كہ ا سكا جلباب [کندھوں سے قدموں تک کی لمبی قمیص]ٹخنوں سے بھی لمبی ہو،چنانچہ ٹخنوں سے ايك بالشت اونچی جلباب عورت كے ليے جائز نہيں، چاہے اس كى پنڈلياں اور قدم پينٹ يا جرابوں كے ساتھ ڈھکی ہوں؛ كيونكہ اس ميں مردوں سے مشابہت ہوتى ہے، جنہيں اپنا لباس ٹخنوں سے اونچا ركھنے كا حكم ہے، اور پھر ايسا كرنے ميں عورت كى ٹانگ كا حجم بھى واضح ہو جاتا ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب