اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

فضائل رمضان میں ضعیف حدیث کا بیان

سوال

مندرجہ ذیل حدیث جو کہ سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کی صحت کیسی ہے ؟
( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری دن خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ فرمایا : لوگو تم پرعظمت اوربرکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ، ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہتر ہے ، اس کے روزے اللہ تعالی نے فرض قرار دیے ہیں اور اس کی رات کا قیام نفل ہے ، جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دونوں میں فریضہ ادا کیا جاۓ ، اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت اور درمیان مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے ۔۔۔ الحدیث ) ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسے ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمہ ( 3 / 191 ) حدیث نمبر ( 1887 ) انہیں الفاظ کے ساتھ روایت کرنے کے بعد یہ کہا کہ (ان صح الخبر ) کہ اگر یہ خبر صحیح ہو ۔

توبعض کتب مراجع سے ان کا لفظ ساقط ہوگيا ہے مثلا منذری کی الترغیب والترھیب ( 2 / 95 ) میں تو لوگوں نے یہ خیال کرلیاہے کہ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے یعنی ان صح الخبر کی جگہ صح الخبر ہوگیا ہے حالانکہ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی نے بالجزم نہیں کہا کہ صحیح ہے ۔

اورالمحاملی نے امالیہ ( 293 ) میں اور بیھقی نے شعب الایمان ( 7 / 216 )اورفضائل الاوقاف ( ص 146 ) نمبر ( 37 ) اور ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب " الثواب " میں اور الساعاتی نے فتح الربانی ( 9 / 233 ) میں ابن حبان کی طرف منسوب کی ہے ، اور سیوطی نے اسے الدرالمنثور میں ذکرکیا اور یہ کہا ہے کہ اسے عقیلی نے روایت کیا اور اسے ضعیف کہا ہے اور الاصبھانی نے الترغیب میں نقل کیا ہے ، اور المنقی نے کنزالعمال ( 8 / 477 ) میں ان سب نے ایک ہی طریق سعید بن المسیب عن سلمان فارسی سے بیان کیا ہے ۔

تویہ حدیث دوعلتوں کی بنا پر ضعیف ہے اوروہ علتیں یہ ہیں :

1 - اس کی سند میں انقطاع ہے کیونکہ سعید بن مسیب کا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے سماع ثابت نہیں ۔

2 - سند میں علی بن جدعان ہے جس کے بارہ میں ابن سعد کا کہنا ہے کہ فیہ ضعف ولا یحتج بہ ، یعنی ضعیف ہے اسے حجت نہیں بنایا جاسکتا ۔

اور اسی طرح امام احمد ، ابن معین ، امام نسائ ، ابن خزیمہ اور جوزجانی وغیرہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں سیراعلام النبلاء ( 5 / 207 ) ۔

اس حدیث پرابوحاتم رازي نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورعینی نے " عمدۃ القاری ( 9 / 20 ) " میں بھی یہی حکم لگایا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی " سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ( 2 / 262 ) حدیث نمبر ( 871 ) میں ایسا ہی حکم لگایا ہے ۔

تواس طرح اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور اسی طرح اس کی سب کی سب متابعات بھی ضعیف ہیں جس پرمحدثين نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورایسے ہی اس میں ایسی عبارت پائ جاتی ہے جس کے ثبوت میں نظر ہے مثلا اسے تین حصوں میں تقسیم کرنا کہ پہلاعشرہ رحمت اوردوسرا مغفرت اورتیسرا آگ سے آزادی کا ہے ، اس کی کوئ دلیل نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالی کا فضل وکرم وسیع ہے اوررمضان مکمل طور پر مغفرت کا ہے اورہر رات اللہ تعالی جہنم سے آزادی دیتے ہیں اوراسی طرح عید الفطر کے وقت بھی جیسا کہ احاديث صحیحہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔

اوراسی طرح حدیث میں یہ بھی ہے کہ :

(جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دونوں میں فریضہ ادا کیا جاۓ ) ۔

تواس کی کوئ دلیل نہیں بلکہ نفل تونفل ہی رہتا ہے اورفرض فرض ہی ہے چاہے رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ کوئ اور مہینہ ۔

اورحدیث میں یہ عبارت بھی ہے کہ :

(اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے ) ۔

تواس تحدید میں بھی خلاف ہے کیونکہ رمضان اورمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں نیکی دس سے لیکر سات سو تک ہے تو اس لیے روزے کے علاوہ کسی چيز کی تخصیص نہیں کیونکہ روزے کا اجر بہت زیادہ جس میں مقدار کی تحدید نہیں کی گئ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ : ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالی فرماتا ہے ( روزے کےعلاوہ ہرعمل ابن آدم کے ليۓ ہے اس لیے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

تو ضعیف احادیث سے بچنا ضروری ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ اسے بیان کرنے سے قبل حدیث کا درجہ معلوم کرلینا چاہیۓ ، اوررمضان المبارک کی فضيلت میں احادیث کی چھان پھٹک کرکے صحیح احادیث لینی چاہیں ۔

اللہ تعالی سب کو توفیق عطا فرماۓ‌ اور روزے اورراتوں کا قیام اورسب اعمال صالحہ قبول فرماۓ ۔ آمین یا رب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: ڈاکٹر احمد بن عبداللہ الباتلی