سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

دعائے سفر کے وقت ہاتھ اٹھانا

تاریخ اشاعت : 25-07-2015

مشاہدات : 6364

سوال

کیا دعا کیلئے ہاتھ اٹھانا شرعی عمل ہے؟ خصوصاً جہاز، کار، یا ریل گاڑی وغیرہ میں سفر کرتے وقت کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کسی بھی جگہ پر دعا کرتے ہوئے  ہاتھ اٹھانا قبولیت ِ دعا کے اسباب میں سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک تمہارا رب باحیا اور پردہ پوشی فرمانے والا ہے جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے اس بات سے حیا آتی ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی  پاکیزہ ہے، اور پاکیزہ شے ہی قبول فرماتا ہے، اور اللہ تعالی نے مؤمنوں کو انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن کا رسولوں کو حکم دیاہے ، چنانچہ مؤمنین کیلئے فرمان باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں، اور اللہ کا شکر ادا کرو [البقرة : 172] اور رسولوں کو حکم دیا: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو [المؤمنون : 51]  پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے  ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں ہے اور غبار آلود اور پراگندہ  حالت کیساتھ  آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے : "یا رب! یا رب!" حالانکہ اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا ،  اس کی نشو و نما حرام پر ہوئی، تو اس کی دعا کیسے قبول ہو؟ ) مسلم

چنانچہ ان احادیث میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھانے  کو  قبولیتِ دعا کا سبب قرار دیا ہے، جبکہ حرام کھانے، اور حرام پر نشو و نما   کو دعا کے مسترد ہونے کا سبب   قرار دیا ہے۔

لہذا اس سے معلوم  ہوا کہ رفع الیدین  دعا کی قبولیت  کے اسباب میں سے ہے، چاہے  دعا ہوائی جہاز ،ریل گاڑی ،کار،  یا کسی بھی سواری میں کی جائے، چنانچہ جس وقت بھی دعا کرے تو ہاتھ اٹھانے سے  قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، البتہ ایسے  مواقع پر ہم ہاتھ نہیں اٹھائیں گے جہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا میں ہاتھ نہیں اٹھائے، مثلاً: خطبہ جمعہ کے دوران دعا کرتے وقت ہاتھ نہیں اٹھائیں گے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران ہاتھ نہیں اٹھائے، لیکن دوران خطبہ بھی اگر بارش کی دعا مانگی جائے تو ہاتھ اٹھائے جاسکتے ہیں، کیونکہ دورانِ خطبہ بارش کی دعا کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے ہیں۔

اسی طرح دو سجدوں کے درمیان ، سلام سے پہلے، اور آخری تشہد  میں [دعا کرتے ہوئے] بھی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نہیں اٹھائے، چنانچہ ہم بھی ان مقامات پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جگہوں پر ہاتھ نہیں اٹھائے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل کرنا بھی حجت ہے، اور نہ کرنا بھی حجت ہے، یہی صورتِ حال  پانچوں نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرعی اذکار کرتے وقت ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے، لہذا ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے  فرض نمازوں کے بعد ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔

تاہم ایسی جگہیں جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ہاتھ اٹھائے ہیں، اس بارے میں سنت یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں  ہم بھی ہاتھ اٹھائیں، کیونکہ  ان جگہوں پر ہاتھ اٹھانا قبولیت کے اسباب میں سے ہے، اسی طرح ایسی جگہیں جہاں پر کوئی  مسلمان دعا مانگنا چاہتا ہے، لیکن اس جگہ کے بارے میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ اٹھانا یا  نیچے رکھنا  کچھ بھی منقول نہیں ہے، تو ایسی جگہوں  میں ہم ہاتھ اٹھائیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا قبولیت کے اسباب میں سے ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: مجموع فتاوى ومقالات از شیخ ابن بازرحمہ اللہ : (6 / 124)