جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ملازمين كى تنخواہ ميں تاخير كرنے كا حكم

تاریخ اشاعت : 02-06-2007

مشاہدات : 5983

سوال

ميں كمپنى ميں اكاؤنٹ كا كام كرتا ہوں جتنے بھى مالى معاملات ہوں حتى كہ چيك بھى وہ ميرے پاس سے ہو كر جاتے ہيں، كمپنى كا مالك زكاۃ كى ادائيگى كرتا ہے، ليكن ملازمين كى تنخواہوں ميں تين ماہ تك كى تاخير كرتا ہے، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ملازمين كى تنخواہ اس كے مستحقہ وقت سے ليٹ كرنى جائز نہيں اور تنخواہ كا وقت كام ختم كرنے كے بعد يا پھر جس مدت متفقہ كے اختتام پر، اگر اس پر اتفاق ہوا ہو كہ مہينہ ختم ہونے كے بعد تنخواہ دى جائيگى تو ہر مہينے كے اختتام پر ملازم كو تنخواہ دينا ضرورى ہے، اور بغير كسى عذر كے اس ميں تاخير كرنا ٹال مٹول اور ظلم شمار ہوگا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

تو اگر وہ تمہارے بچے كو دودھ پلائيں تو انہيں ان كى اجرت دے دو الطلاق ( 6 ).

تو اللہ تعالى نے ان عورتوں كا كام ختم ہونے كے فورا بعد ان كى اجرت دينے كا حكم ديا ہے.

اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مزدور كى مزدورى اس كا پسينہ خشك ہونے سے قبل ادا كرو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2443 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس سے مراد يہ ہے كہ مزدور كا كام ختم ہونے كے فورا بعد اس كى اجرت اور مزدورى دے دى جائے، اور اسى طرح جب مدت متفقہ ختم ہو ( جو كہ اس وقت غالب طور پر ايك ماہ ہے ) تو اس كا حق اسے ادا كرنا واجب ہے.

مناوى رحمہ اللہ " فيض القدير " ميں لكھتے ہيں:

" استطاعت اور قدرت ہونے كے باوجود اس ميں ٹال مٹول سے كام لينا اور اچھا ديتا ہوں كہنا حرام ہے، تو اس كا پسنہ خشك ہونے سے قبل اس كى اجرت دينے كا حكم كام سے فارغ ہونے كے بعد مزدور كے مطالبہ پر فورا دينے كے حكم سے كنايہ ہے، چاہے اسے پسينہ نہ بھى آيا ہو، يا پھر پسينہ آ كر خشك ہو چكا ہو " انتہى.

كمپنى كے مالك كا تنخواہ دينے ميں ٹال مٹول سے كام لينا ظلم ہے جو قابل مؤاخذہ اور سزا كا مستحق قرار ديتا ہے.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" غنى اور مالدار كا ٹال مٹول سے كام لينا ظلم ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2400 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1564 ).

المطل: ٹال مٹول كو كہتے ہيں.

اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مالدار اور غنى شخص كا ٹال مٹول سے كام لينا اس كى عزت اور اسے سزا دينے كو حلال كر ديتا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3628 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 4689 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2427 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1434 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اللي: ٹال مٹول كو كہتے ہيں.

اور الواجد: غنى و مالدار كے معنى ميں ہے.

اور اس كى عزت حلال ہونے كا معنى يہ ہے كہ: وہ يہ كہہ سكتا ہے كہ فلاں شخص نے مجھے دينے ميں ٹال مٹول سے كام ليا اور مجھ پر ظلم كيا ہے.

اور اسے سزا كا مستحق كرتا ہے كا معنى يہ ہے كہ: اسے قيد كى سزا دى جا سكتى ہے، سفيان رحمہ اللہ وغيرہ نے يہى شرح بيان كى ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص اپنے ملازمين كو اپنے ملك جانے سے قبل تنخواہ نہيں ديتا، يا پھر ہر ايك يا دو سال كے بعد تنخواہ ديتا ہے، اور ملازمين كچھ نہ كر سكنے، اور كہيں اور كام نہ ملنے اور مال كى ضرورت كے پيش نظر اس پر راضى ہوتے ہيں تو ايسے شخص كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" مالك كو چاہيے كہ وہ ملازمين كو ہر ماہ كے آخر ميں ان كى تنخواہ دے ايسا كرنا اس پر واجب ہے، جيسا كہ آج لوگوں كے ہاں معروف ہے، ليكن اگر ملازم اور مالك كے مابين يہ اتفاق ہوا ہو كہ تنخواہ ايك سال بعد يا دو سال بعد دى جائيگى تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان اپنى شرطوں پر عمل كرتے ہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 390 ).

مندرجہ بالا سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر كمپنى كے مالك كو آپ نصيحت كريں، اور اس كے سامنے ملازمين كى تنخواہ ميں تاخير كرنے كى حرمت واضح كريں، اور يہ بھى بتائيں كہ انہيں نقصان اور ضرر دينا حرام ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب