جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

ايام تشريق كي راتيں مني ميں بسر نہ كرنا

سوال

ميري گزارش ہے كہ مني ميں ايام تشريق كي راتيں بسر نہ كرنے كا حكم بيان فرمائيں ، اگر جواب يہ ہے كہ بسر نہ كرنے والے پر دم لازم آتا ہے تو كيا ہر رات كے بدلے ايك بكري ذبح كي جائے گي يا ايك ہي كافي ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جمہور فقھاء كرام كے ہاں ايام تشريق كي راتيں مني ميں بسر كرنا واجب ہيں، بغير كسي عذر كے مني ميں رات بسر نہ كرنے والے پر دم لازم آتا ہے ، اور رات بسر كرنےميں جمہور فقھاء يہ كہتے ہيں كہ رات كا اكثر حصہ مني ميں بسركرنا واجب ہے .

ديكھيں : الموسوعۃ الفقھيۃ جلد ( 17 ) صفحہ ( 58 )

مني ميں ايام تشريق كي راتيں بسر نہ كرنے ميں تفصيل ہے:

پہلي حالت: كسي عذر كي بنا پر مني ميں رات بسر نہ كي جائے .

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالي سےسوال كيا گيا : جوشخص مني ميں ايام تشريق كي راتيں بسر كرنے كي استطاعت نہ ركھے اس كا حكم كيا ہے ؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالي كاجواب تھا : اس كےذ مہ كچھ لازم نہيں آتا كيونكہ اللہ تعالي كا فرمان ہے : حسب استطاعت اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرو چاہے كسي مرض يا جگہ نہ ملنے يا كسي اورشرعي سبب كي بنا پر رات بسر نہ كي ہو مثلا پاني پلانے والے اورچرواہے يا جولوگ ان كے حكم ميں آتے ہيں .

دوسري حالت : اگرمني ميں ميں بغيركسي عذر كے رات بسر نہ كي جائے .

شيخ رحمہ اللہ تعالي كا كہنا ہے :

جس نے بھي مني ميں ايام تشريق كي راتيں بغير كسي عذر شرعي جو نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كے قول يا فعل يا بعض عذر والوں كو رخصت دينے كي دلالت كےساتھ مشروع ہو مثلا پاني پلانے والے لوگ يا چرواہے , اور رخصت عزيمت كے مقابلے ميں ہوتي ہے اسي ليے مني ميں ايام تشريق كي راتيں بسركرنا علماء كرام كے صحيح قول كےمطابق حج كے واجبات ميں شامل كي جاتي ہيں ، لھذا جس نے بھي بغير كسي شرعي عذر كے مني ميں رات بسر نہ كي اس پر دم لازم آتا ہے .

اس كي دليل ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما كي حديث ہے ( جس نے بھي كوئي عمل ترك كرديا يا بھول گيا اسے چاہيے كہ وہ قرباني كرے ) مني ميں ايام تشريق كي راتيں بسر نہ كرنے پر ايك دم ہي كافي ہوگا .

ديكھيں : مجموع فتاوي الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 5 / 182 )

اور يہ جانور مكہ ميں ذبح كركے وہاں كے فقراء ومساكين ميں تقسيم كيا جائے گا .

اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلميۃ والافتاء , ديكھيں فتاوي اللجنۃ الدائمۃ ( 11/ 281 ) .

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد