جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

پڑھائی میں مصروف ہونے کے باعث جمعہ زوال سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ادا کرتے ہیں

سوال

سوال: ہمیں اسکول میں نماز جمعہ ادا کرنے کیلیے تفریح کے دوران دوپہر کے کھانے کے وقت ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور یہ وقت نماز کے اصل وقت سے ایک گھنٹے سے بھی پہلے ہوتا ہے۔
اس عمل کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں متعدد نظریات پائے جاتے ہیں، اور اس کی وجہ سے میرے اسکول کے دیگر مسلمان طلبا ء سمیت میرے شہر کے بقیہ اسکولوں کے مسلم طلباء بھی پریشان ہیں، کیونکہ میرے ایسے دوست ہیں جن کے بھائی اسی شہر کے دیگر اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور اسی مشکل کا سامنا کر رہے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہمیں اس بارے میں حدیث یا قرآن کریم کی آیت کے مطابق جواب دیں، جزاکم اللہ خیرا

جواب کا متن

الحمد للہ.

حنفی، شافعی، اور مالکی  فقہائے کرام پر مشتمل جمہور اہل علم  کا موقف یہ ہے کہ نماز جمعہ  سورج ڈھلنے کے بعد ہی ادا کی جائے، یہی وقت ظہر کا اول وقت ہے۔

دیکھیں: "الأم" (1/223) ، "المجموع" (4/377-381) ، "الموسوعة الفقهية" (27/197-198)

ان کی دلیل صحیح مسلم: (860) میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "جب سورج ڈھل جاتا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ جمعہ کی نماز ادا کرتے اور جب  واپس ہوتے تو زوال کا سایہ ہمارے آگے آگے ہوتا"

اسی طرح  صحیح بخاری : (904) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا)

جبکہ حنبلی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ نماز جمعہ سورج ڈھلنے سے پہلے بھی جائز ہے، انہوں نے کچھ احادیث اور سلف سے منقول کچھ آثار کو دلیل بنایا ہے، جن کے ظاہری مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ زوال سے قبل بھی جائز ہے۔

صحیح مسلم: (858) میں ابو جعفر باقر رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس وقت نماز جمعہ ادا کرتے تھے؟" تو انہوں نے کہا: "آپ نماز جمعہ پڑھاتے اس کے بعد ہم اپنے چرنے والے اونٹوں کو سورج کے ڈھلنے کے وقت واپس لے کر آتے"

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ زوال سے قبل پڑھائی۔

اسی طرح بخاری: (939)  اور مسلم: (859) میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قیلولہ [دن کے وقت کا آرام] اور  دوپہر کا کھانا  جمعہ کے بعد ہی تناول کرتے تھے"

شوکانی رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں زوال شمس  سے پہلے نماز جمعہ ادا کرنے کی دلیل ہے، اور اسی کے احمد بن حنبل قائل ہیں۔
دلیل اس طرح بنتی ہے کہ: غدا اور قیلولہ عربی زبان میں ہوتا ہی زوال سے پہلے ہے، بلکہ ابن قتیبہ  رحمہ اللہ سے یہ بھی منقول ہے کہ: زوال شمس کے بعد کیے جانے والے آرام اور کھائے جانے والے کھانے کو غدا اور قیلولہ سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔

البتہ ابن العربی نے عجیب بات کی ہے کہ جمعہ زوال شمس کے بعد ہی واجب ہوتا ہے اور اس پر امام احمد کے سوا سب کا اجماع بھی نقل کیا، لیکن یہ بات نا قابل التفات ہے؛ کیونکہ ابن قدامہ وغیرہ نے متعدد سلف صالحین سے امام احمد جیسا موقف نقل کیا ہے" انتہی
"نیل الأوطار" (3/319)

نیز ابن ابی شیبہ  نے "مصنف ابن ابی شیبہ" (5140) میں بلال عبسی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ : "عمار رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی تو کچھ کہنے لگے سورج ڈھل چکا ہے، اور کچھ کہنے لگے کہ سورج ابھی تک نہیں ڈھلا"

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے استفسار کیا گیا:

"زوال سے ایک گھنٹہ پہلے نماز جمعہ ادا کرنا جائز ہے؟ -کیونکہ فرانس میں ڈیوٹی اسی وقت شروع ہوتی ہے- یہ واضح رہے کہ اگر ہم نے اوقات کار شروع ہونے سے پہلے جمعہ ادا نہ کیا تو پھر ہم جمعہ بالکل بھی ادا نہیں کر سکتے، تو کیا ایسی ضرورت میں کوئی جواز کی شکل نکلتی ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"نماز جمعہ کے اول وقت کی تعیین کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ اکثر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ  جمعہ کا اول وقت وہی ہے جو ظہر کا اول وقت ہے یعنی زوال شمس؛ لہذا زوال سے چاہے تھوڑی دیر پہلے یا زیادہ دیر پہلے نماز جمعہ ادا کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر کوئی پڑھ لے تو ادا نہیں ہوگی؛ کیونکہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: "جب سورج ڈھل جاتا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ جمعہ کی نماز ادا کرتے اور جب  واپس ہوتے تو زوال کا سایہ تلاش کرتے" اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح  انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا) صحیح بخاری

جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ: طلوعِ آفتاب کے پانچ یا چھ گھنٹے گزرنے کے بعدادا کرنا جائز نہیں ہے[یعنی: ظہر کی نماز سے تقریباً ایک یا دو گھنٹے پہلے ]

اور امام احمد  سمیت دیگر اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ نماز جمعہ کا اول وقت  وہ ہے جو نماز عید کا اول وقت ہے، جبکہ زوال شمس  ہونے پر جمعہ کیلیے جانا واجب ہو جاتا ہے، ان اہل علم نے زوال سے قبل نماز جمعہ پڑھنے کیلیے جابر رضی اللہ عنہ کی اس بات کو دلیل بنایا ہے: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ پڑھاتے اس کے بعد ہم اپنے چرنے والے اونٹوں کو سورج کے ڈھلنے کے وقت واپس لے کر آتے" مسلم

اسی طرح سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز جمعہ ادا کر کے واپس ہوتے تو دیواروں کا سایہ بالکل نہیں ہوتا تھا"  ابو داود

ان احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہوگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات زوال کے بعد نماز جمعہ ادا کرتے تھے، لیکن بسا اوقات  زوال سے کچھ پہلے بھی ادا کر لیتے تھے۔

لہذا بہتر یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم زوال کے بعد نماز جمعہ ادا کریں، اس  طرح اختلاف بھی پیدا نہیں ہوگا،  نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، اور اس میں وسعت بھی ہے، لہذا اگر کوئی شخص  زوال سے کچھ پہلے  نماز جمعہ ادا کر لے تو ان شاء اللہ اس کی نماز صحیح ہوگی، خصوصاً اگر کوئی عذر ہو جیسے کہ سوال میں مذکور ہے " انتہی

"فتاوى اللجنة الدائمة" (8/216-217)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
کیا سورج ڈھلنے سے پہلے  نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

زوال شمس سے پہلے جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے، لیکن افضل یہی ہے کہ زوال کے بعد ادا کی جائے، تا کہ اختلاف پیدا نہ ہو؛ کیونکہ اکثر علمائے کرام کہتے ہیں کہ  نماز جمعہ زوال کے بعد پڑھنا ضروری ہے،  یہ اکثر علمائے کرام کا موقف ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم چھٹی گھڑی [یعنی: طلوعِ آفتاب کے چھ گھنٹے بعد]میں  نماز جمعہ ادا کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں، اور اس بارے میں جو احادیث اور آثار موجود ہیں وہ صحیح ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص زوال سے کچھ دیر پہلے نماز جمعہ ادا کر لے تو اس کی نماز صحیح ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ نماز جمعہ زوال کے بعد ہی ادا کی جائے، تا کہ سب احادیث پر عمل بھی ہو جائے اور علمائے کرام کے اختلاف سے بھی دور رہیں، اس طرح لوگوں کیلیے بھی آسانی ہوگی کہ سب کے سب نماز جمعہ میں شریک ہو سکتے ہیں، نیز ایک وقت پر نماز ادا کرنا بھی ممکن ہوگا، لہذا زوال کے بعد ہی ادا کرنا بہتر اور محتاط عمل ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (12/391)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"کچھ خطبائے کرام جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہو کر وقت سے پہلے خطبہ دینا شروع کر دیتے ہیں اور بسا اوقات تو زوال کا وقت بھی نہیں ہوا ہوتا  اور نماز کھڑی کر دی جاتی ہے، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"زوال سے پہلے خطبہ جمعہ شروع کرنے کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ کچھ کا کہنا ہے کہ زوال شمس سے پہلے جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے زوال سے پہلے جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے، ان دونوں اقوال میں سے صحیح بات یہی ہے کہ زوال سے تقریباً ایک یا آدھا گھنٹہ پہلے نماز جمعہ ادا  کرنا جائز ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ زوال کے بعد نماز جمعہ ادا کی جائے، حتی کہ ان علمائے کرام کے نزدیک بھی زوال کے بعد نمازِ جمعہ ادا کرنا افضل ہے جو زوال سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے جمعہ کی نماز ادا کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔۔۔ لہذا اگر کوئی شخص زوال سے پہلے اس موقف کے مطابق نماز ادا کرتا ہے جو زوال سے پہلے نماز جمعہ کو جائز قرار دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن زوال سے قریب ہی نماز ادا کرے بہت پہلے ادا نہ کرے" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" (16/19)

چنانچہ اس بنا پر ؛ اگر آپ نماز جمعہ ظہر کے معمول بہ وقت سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے  ادا کر لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ محتاط یہی ہے کہ آپ ایک گھنٹہ سے زیادہ  پہلے مت ادا کریں، اور اگر آپ کیلیے زوال کے بعد جمعہ ادا کرنا ممکن ہو تو یہ افضل اور بہتر ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب