اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اسلام قبول کرنے کے بعداپنے گندے ماضی پرمضطرب نہ ہوں

سوال

میں نوعمرلڑکی ہوں اوراسلام قبول کرنے کا ارادہ ہے اس لیے کہ دین اسلام کے حق ہونے پرمیرایقین ہے ، لیکن میری ایک مشکل ہے کہ اسلام کے تعارف سے قبل میری ساری زندگی گناہوں سے بھری تونہيں لیکن میں نے گناہ بہت زيادہ کیے ہیں، توکیا میرااسلام لاناممکن ہے ؟
اورمجھے اپنی سابقہ زندگی کے بارہ میں کیا کرنا چاہیے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فرمان باری تعالی ہے :

بمسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میں اللہ تعالی کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑامہربان نہائت رحم کرنے والا ہے ۔

حم ، اس کتاب کا نازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جوغالب اوردانا ہے ، گناہ بخشنے والا اورتوبہ قبول فرمانے والا ، سخت عذاب دینے والا ، انعام وقدرت والا ، ہے جس کے علاوہ کوئ معبود برحق نہیں ، اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے غافر ( 1-3 ) ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ جوکہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں بیان کرتے ہيں کہ کہ کچھ مشرک لوگوں نے بہت زيادہ قتل وغارت اورزناکاری کی اورپھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے :

آپ جوکچھ کہتے اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھی چیزہے ، اور اگر آّپ ہمیں ہمارے ان اعمال کے بارہ میں بتائيں جن کا ہم ارتکاب کرچکے ہیں کہ آیا ان کا کفارہ ہے کہ نہیں ؟

تواللہ تعالی نے یہ فرمان نازل فرمادیا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ آپ میری طرف سے ) کہہ دیں کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پرظلم وزیادتی کی ہے تم اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ ، یقینا اللہ تعالی سارے گناہوں کوبخش دیتا ہے وہ واقعی بڑی بخشش اوربڑی رحمت والا ہے ۔

تم سب اپنے پروردگار کی رجوع کرو اورجھک جاؤ اوراسی کی پیروی واطاعت کیے جا‎ؤ قبل اس کے کہ تمہارے پاس عذاب آجاۓ اورپھرتمہاری مدد نہ کی جاۓ ۔

اوراس بہترین چيزکی پیروی و اتباع کرو جوتہماری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئ ہے ، قبل اس کے کہ تم پراچانک عذاب آجاۓ اورتمہیں اس کی اطلاع بھی نہ ہو ۔

( ایسا نہ ہوکہ ) کوئ شخص کہے ہاۓ اس بات پرافسوس ! میں نے اللہ تعالی کے حق میں کوتاہی کی ، بلکہ میں تومذاق اڑانے میں سے ہی رہا ۔

یا یہ کہے کہ اگر اللہ تعالی مجھے ھدایت کرتا تو میں بھی پارسا اورنیک لوگوں میں سے ہوتا ۔

یا عذاب کودیکھ کر یہ کہے کہ کاش ! کسی طرح میرا لوٹ جانا ہوتا تومیں بھی نیکو کاروں میں ہوجاتا ۔

ہاں بلاشک وشبہ تیرے پاس میری آیات پہنچ چکی تھیں جنہیں تونے جھٹلایا اورغرور وتکبر کیا اورتوتھا ہی کافروں میں سے } الزمر ( 53- 59 ) ۔

اورعمروبن عاص رضي اللہ تعالی عنہ بھی زمانہ جاہلیت میں مشرک اور گناہ گاراوراللہ کے دشمن تھے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ :

جب اللہ تعالی نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تومیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کرنے کےلیے پہنچا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بیعت کےلیے بڑھایا تومیں نے انہیں کہا کہ میں اس وقت بیعت نہیں کروں گا جب تک آپ میرے سابقہ گناہوں کی بخشش طلب نہیں کرتے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےفرمایا :

اے عمرو کیاتیرے علم میں نہیں کہ اسلام سابقہ تمام گناہوں کوختم کردیتا ہے،مسنداحمد حدیث نمبر ( 17159 ) ۔

توآپ بھی اللہ تعالی کی طرف بھاگیں اوریہ علم میں رکھیں کہ جوکچھ بھی آپ کےذہن میں ہےاس پر پریشان نہ ہوں اس لیے کہ اوپربیان کی گئ نصوص وآیات میں اس کا حل موجود ہے بلکہ یہ آیات ونصوص تو آپ سے ہی مخاطب ہیں اورآپ کی مشکل اورقضیہ حل کررہی ہیں ۔

اورجب آپ کا رب رحیم وتواب اورسب گناہوں کوبخش دینے والا ہے اور اس کی رحمت ہرچيزپروسیع ہے ، اوراللہ تعالی نے آپ کواپنے بندوں سے پکارا ہے کہ آپ اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوۓ اسلام قبول کرلیں ۔

اوراللہ تعالی نے آپ سے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے آپ کے قبول اسلام کی صورت میں آّّّپ کے سابقہ کبیرہ اورصغیرہ گناہ کی سب اقسام مٹانے اورختم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔

اورآپ ایک نئ زندگی شروع کریں گی جس میں آپ کے اعمال کا صحیفہ اوررجسٹر گناہوں سے بالکل صاف شفاف ہے ، تواب آپ انتظار کس چيزکا کررہی ہيں اورکس لے اس کام میں تاخیر کررہی ہیں ؟

آپ آگے بڑھیں اورجلدی سے اسلام کی طرف قدم بڑھاتے ہوۓ اسلام قبول کریں اوراپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوں کرجنت میں داخلے کی راہ ہموار کریں ۔

ہم آپ کواسلام کے ساۓ میں ایک روشن مستقبل اوراچھی زندگی کی خوشخبری سناتے ہیں ۔

اللہ کی قسم ہم آپ کے سوال سے بہت خوش ہوۓ ہيں اورہم آپ کی جانب سے اس سعادت مندی کی خبر کے منتظرہیں ۔

اورآپ قبول اسلام کی کیفیت کے لیے سوال نمبر( 703 ) اور( 11936 ) اوراس کے ساتھ ویپ سائٹ میں اسلام قبول کرنے کی قسم کو بھی دیکھیں ۔

اللہ تعالی آّپ کوہر قسم کی برائ اورشر سے محفوظ رکھے ، اوروہ اللہ تعالی بہت ہی اچھا ولی وکارساز اوربہت ہی اچھا مدد گار اورسیدھے راستے کی راہنمائ کرنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد