اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

غیر مسلم والدہ کیساتھ رہنے کا حکم

تاریخ اشاعت : 21-01-2016

مشاہدات : 13525

سوال

غیر مسلم والدہ کیساتھ رہنے کا کیا حکم ہے؟ اور والدہ کیساتھ رہنے کیلئے بیوی کو بھی اسی گھر میں منتقل کرنا کیسا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بیٹا اپنی غیر مسلم والدہ کیساتھ رہے یا غیر مسلم ماں اپنے بیٹے کیساتھ رہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ اگر بیٹا اپنی والدہ کیساتھ حسن سلوک سے پیش آئے تو یہ والدہ کے اسلام قبول کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے، ا س لیے ان کے سامنے اسلام اچھے انداز سے پیش کریں، اور کسی بھی ایسی حرکت سے باز رہیں جن سے ان کے اسلام قبول کرنے میں تاخیر ہو۔

چاہے والدین غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں ایک مسلمان کو اپنے والدین کیساتھ ہر حالت میں حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ کسی بھی مسلمان کیلئے والدین کی نافرمانی یا ان کیساتھ بد سلوکی کرنا جائز نہیں ہے، اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ گناہ اور معصیت کے کاموں میں ان کی اطاعت کرے یا کفریہ امور میں ان کا ہمنوا بنے۔

1- فرمانِ باری تعالی ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
ترجمہ: ہم نے انسان کو والدین کے بارے میں حسن سلوک کی تاکیدی نصیحت کی ہے ، اور اگر والدین کی طرف سے تمہیں میرے ساتھ شرک پر مجبور کیا جائے جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں ہے تو تم ان کی اطاعت مت کرو، میری طرف ہی تم نے لوٹنا ہے، تو میں تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دونگا۔[العنكبوت : 8]

2- وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
ترجمہ: اور اگر   والدین تمہیں میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں ہے تو تم ان کی اطاعت مت کرو، لیکن دنیا میں ان کیساتھ حسن سلوک کرو، میری طرف رجوع کرنے والوں کے راستے پر چلو، میری طرف ہی تم نے لوٹنا ہے ، تو میں تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دونگا۔ [لقمان : 15]

3- اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "میرے پاس میری والدہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تشریف لائیں ، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : میری والدہ میرے پاس آئیں ہیں اور وہ مجھ سے کافی محبت کرتی ہیں، تو کیا میں صلہ رحمی کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں ، اپنی والدہ کیساتھ صلہ رحمی کرو)"
بخاری: ( 2477 )  مسلم :( 1003 )

4- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں کہ ان کی والدہ نے قسم اٹھا لی کہ جب تک سعد اسلام ترک نہ کر دے اس وقت تک اس سے بات نہیں کرے گی، اور نہ ہی کچھ کھائے پیے گی۔
چنانچہ سعد کی والدہ نے ان سے کہا: "تم کہتے ہو کہ تمہارا نبی والدین کیساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے، تو میں تمہاری ماں ہوں اور تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اسلام چھوڑ دو" سعد کہتے ہیں کہ: میری والدہ تین دن تک بھوکی پیاسی رہیں اور آخر تاب نہ لا کر بیہوش ہوگئی، اس پر سعد کے ایک اور بھائی نے جس کا نام عمارہ تھا اٹھ کر پانی پلا دیا ، چنانچہ وہ ہوش میں آئی اور سعد کو بد دعائیں دینے لگی، تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کی یہ آیات نازل کر دیں:

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي
ترجمہ: ہم نے انسان کو والدین کے بارے میں حسن سلوک کی تاکیدی نصیحت کی ہے ، اور اگر والدین کی طرف سے تمہیں میرے ساتھ شرک پر مجبور کیا جائے ۔۔۔ [العنكبوت : 8]

اور اسی بارے میں یہ بھی ہے:
وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا
ترجمہ:  والدین کیساتھ دنیا میں حسن سلوک کرو۔[لقمان : 15] اس واقعہ کو مسلم (1748)نے روایت کیا ہے۔

5- یہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا والدین کی طرف سے داڑھی منڈوانے کے متعلق حکم کے بارے میں فتوی ہے:
سوال: داڑھی منڈوانے کے بارے میں والدین کی اطاعت کے متعلق سوال ہے۔

شیخ نے جواب دیا:
"اس بارے میں والدین کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ داڑھی رکھنا  اور اسے بڑھانا واجب ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (مونچھوں کو کاٹو اور داڑھی کو معاف کرتے ہوئے مشرکین کی مخالفت کرو)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (اطاعت نیکی کے کاموں کی ہوتی ہے) داڑھی کو بڑھانا  واجب ہے، فقہا کی اصطلاح کے مطابق سنت نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کے بارے میں حکم دینا اسے واجب قرار دیتا ہے، جب تک کوئی صارف موجود نہ ہو " انتہی
"مجموع فتاوى شیخ ابن باز " ( 8 / 377 – 378 )

مزید کیلئے سوال نمبر: (5053 ) اور (6401) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب