اتوار 16 جمادی اولی 1446 - 17 نومبر 2024
اردو

گوشت چھوڑ كر صرف سبزياں كھانے كا حكم

تاریخ اشاعت : 01-08-2008

مشاہدات : 9024

سوال

ميں صرف نباتات استعمال كرتى ہوں، يعنى گوشت يا حيوان كا كوئى بھى مشتق نہيں كھاتى، مجھے دين اسلام بہت اچھا لگا ہے، تو كيا ميرے ليے دين اسلام ميں داخل ہونا ممكن ہے، ليكن ميں حيوان كے مشتقات والى كوئى چيز نہيں كھانا چاہتى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں آپ بغير گوشت اور حيوان كے مشتقات كھائے بھى مسلمان بن سكتى ہيں، ليكن آپ درج ذيل امور سے اجتناب كرنا ہو گا:

اول:

ان اشياء كى حرمت كا اعتقاد ركھنا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى نے جو پاكيزہ اشياء تمہارے ليے حلال كى ہيں انہيں حرام مت كرو، اور حد سے تجاوز مت كرو، يقينا اللہ تعالى حد سے تجاوز كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا المآئدۃ ( 87 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

آپ فرما ديجئے كہ اللہ تعالى كے پيدا كيے ہوئے اسباب زينت كو جو اللہ نے اپنے بندوں كے واسطے بنائے ہيں، اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے آپ كہہ ديجئے كہ يہ اشياء اس طور پر كہ قيامت كے روز خالص اہل ايمان كے ليے ہونگى، اور دنياوى زندگى ميں مومنوں كے ليے بھى ہيں، ہم اسى طرح تمام آيات كو سمجھ داروں كے ليے صاف صاف بيان كرتے ہيں الاعراف ( 32 ).

اور ايك مقام پر اللہ عزوجل كا فرمان اس طرح ہے:

آپ كہہ ديجئے كہ يہ تو بتاؤ كہ اللہ تعالى نے تمہارے ليے جو كچھ رزق بھيجا تھا پھر تم نے اس كا كچھ حصہ حرام اور كچھ حلال قرار دے ليا، آپ پوچھئے كہ كيا تمہيں اللہ تعالى نے حكم ديا تھا، يا كہ تم اللہ تعالى پر افترا ہى كرتے ہو يونس ( 59 ).

دوم:

يہ اعتقاد ركھنا كہ حيوان كے اجزاء كى بنى ہوئى اشياء نہ كھانا افضل ہيں، يا اسے ترك كرنے پر اجروثواب ہوتا ہے، يا صرف سبزياں كھانے والے شخص كو اللہ كا زيادہ قرب حاصل ہے يا اس طرح كے اور اعتقاد ركھنا صحيح نہيں، كيونكہ اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انسانوں ميں سب سے افضل اور اللہ كے زيادہ قريب تھے، ليكن انہوں نے بھى گوشت كھايا، اور دودھ پيا اور شہد بھى كھايا.

اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كچھ صحابہ كرام نے بطور عبادت اور اجروثواب گوشت ترك كرنا چاہا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے غلط قرار دياجيسا كہ درج ذيل قصہ ميں وارد ہے:

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كچھ صحابہ كرام ميں سے ايك نے كہا: ميں عورتوں سے شادى ہى نہيں كرونگا، اور دوسرے نے كہا: ميں گوشت نہيں كھاؤنگا، اور تيسرا كہنے لگا: ميں بستر پر سونا چھوڑتا ہوں، اور ايك نے كہا: ميں روزے سے ہى رہونگا اور افطار نہيں كرونگا.

تو يہ باتيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك پہنچيں تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمايا اور حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد فرمايا:

ان لوگوں كا كيا حال ہے جنہوں نے ايسى ايسى باتيں كى ہيں، ليكن ميں تو نماز بھى پڑھتا ہوں اور سوتا بھى ہوں اور روزہ افطار بھى كرتا اور روزہ ركھتا بھى ہوں، اور ميں نے عورتوں سے شادى بھى كر ركھى ہے، تو جو بھى ميرى سنت اور طريقہ سے بےرغبتى كرتا ہے وہ مجھ ميں سے نہيں "

اسے امام نسائى نے روايت كيا ہے، اور يہ قصہ بخارى اور مسلم ميں موجود ہے.

اس ميں فرق ہے كہ ايك شخص كوئى كھانا نہ چاہنے يا پھر ناپسند ہونے كى بنا پر ترك كرے، يا پھر نفسياتى طور پر كوئى مشكل يعنى اس نے بچپن ميں جانور ذبح ہوتے ہوئے ديكھا اور اس كے دل ميں گوشت كھانے سے نفرت پيدا ہو گئى، اور كوئى شخص گوشت كو حرام يا اسے اجروثواب كى نيت سے ترك كرے جيسا كہ بعض صوفى اور تارك دنيا گمراہ قسم كے لوگ كرتے ہيں.

جب آپ كے ليے يہ مسئلہ واضح ہو گيا ہے تو آپ كے ليے وہ چيز ترك كرنے ميں كوئى حرج نہيں جس كى آپ رغبت نہيں ركھتيں، اور ہميں اس سے بہت خوشى ہو گى كہ آپ بہت جلد اور قريب ہى اسلامى بہن بن جائيں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق عطا فرمائے، اور ہر برائى اور مشكل سے آپ كى حفاظت فرمائے، وہ اللہ ہى صراط مستقيم كى طرف راہنمائى كرنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد