جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اسلام قبول کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام معلوم ہونا ضروری ہے؟

سوال

ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو اسلام قبول کرنا چاہتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ انسانیت کی طرف کسی رسول کو بھیجا گیا ہے اور وہ ان پر ایمان بھی رکھتا ہے، لیکن اسے ان کے نام کا علم نہیں ہے؟ تو کیا وہ اس طرح اسلام میں داخل ہو جائے گا؟ یا پھر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا نام معلوم ہونا ضروری ہے؟ اور کیا اتنا کافی ہو گا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت، یا محمد کے علاوہ کوئی اور نام مثلاً: احمد یا الماحی نام جان لے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر کوئی بولنے کی استطاعت رکھتا ہو تو شہادتین کے تلفظ کے اور ان کے اقرار کے بغیر انسان اسلام میں داخل نہیں ہوتا، امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل سنت محدثین، فقہائے کرام اور متکلمین اس بات پر متفق ہیں کہ: کوئی ایسا مومن جس کے بارے میں یہ حکم لگایا جائے کہ وہ اہل قبلہ میں شامل ہے اور ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا [آخر کار جنت میں ضرور جائے گا]اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ اپنے دل سے پختہ طور پر اسلام کو بطور دین قبول کرے اور کسی قسم کا اسلام کے متعلق اس کے دل میں شک و شبہ باقی نہ ہو، نیز شہادتین زبان سے ادا بھی کرے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص ان میں سے صرف کوئی ایک کام کرتا ہے تو وہ سرے سے اہل قبلہ میں شامل ہی نہیں ہو سکا، ہاں اگر زبان میں خلل کی بنا پر یا تلفظ نہیں کر سکا یا موت کی کشمکش میں یا کسی اور سبب کے باعث زبان سے ادا نہیں کر پایا تو وہ بھی مومن ہو گا" ختم شد
شرح مسلم ، از امام نووی(1/ 149)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"شہادتین کا تلفظ لازمی امر ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، چنانچہ اگر کوئی زبان سے تلفظ کر سکتا تھا لیکن پھر بھی اس نے زبان سے تلفظ نہیں کیا تو وہ اسلام میں اس وقت تک داخل ہی نہیں ہو گا جب تک زبان سے شہادتین کا اقرار نہ کر لے، اس پر اہل علم کا اجماع ہے، اسی طرح تلفظ کے ساتھ شہادتین کے معنی کے مطابق حقیقی معنوں میں عقیدہ بھی رکھے" ختم شد
مجموع فتاوى ابن باز" (5/ 340)

اگر کوئی شخص شہادتین کا تلفظ نہیں کر سکتا جیسے کہ کوئی گونگا ہے تو اگر اس میں لکھنے کی صلاحیت ہے تو وہ لکھ کر اسلام قبول کرے گا، یا کسی اشارے سے اسلام قبول کرے گا جس سے یہ واضح ہو کہ اس شخص نے اپنی پوری خوشی اور مکمل رضا مندی سے اسلام قبول کر لیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (224858) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے آپ کا نام لینا ضروری ہے، اس میں آپ کے کسی بھی نام اور کنیت کو ذکر کیا جا سکتا ہے، سب کا حکم یکساں ہے، مثلاً: محمد، احمد، الماحی اور ابو القاسم وغیرہ ۔

جیسے کہ حلیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی کافر [اسلام قبول کرنے کے لئے ]یہ کہے کہ "لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ" تو اس کا یہ بول "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کہنے کی طرح ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ 
ترجمہ: اور میں [عیسی بن مریم] ایک ایسے رسول کی خوش خبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہے۔ [الصف: 6]
پھر دونوں ناموں کا مسمی بھی ایک ہی ہے، اس لیے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اسی طرح اگر کہے کہ "لا الہ الا اللہ ابو القاسم رسول اللہ" تو تب بھی صحیح ہے۔ واللہ اعلم"
" المنھاج فی شعب الإيمان" از حلیمی(1/140)

سوم:

جس شخص کو یہ علم ہو کہ کوئی ایک رسول ہے جسے ساری انسانیت کی جانب بھیجا گیا ہے، لیکن اسے اس رسول کے نام کا علم نہیں ہے، تاہم وہ اس پر ایمان رکھتا ہے، اس بات کی گواہی اپنی زبان سے بھی دیتا ہے تو وہ شخص بھی مسلمان ہو گا، مثلاً: کوئی شخص کہے: میں نے اسلام قبول کر لیا، یا کہہ دے میں اس رسول پر ایمان لایا جس پر مسلمان ایمان لاتے ہیں، اسی طرح کی بات اللہ تعالی نے فرعون سے بھی نقل کی ہے کہ جب وہ پانی میں غرق ہونے لگا تو اس نے کہا تھا:
 حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ 
ترجمہ: جب وہ پانی میں غرق ہونے لگا تو اس نے کہا: میں اس ذات پر ایمان لاتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں، اور جس پر بنی اسرائیل ایمان رکھتے ہیں، اور میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں۔[يونس: 90]

پھر اس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا:
 آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ 
ترجمہ: کیا اب ایمان لاتا ہے؟! حالانکہ اس سے قبل تو نافرمانی کرتا رہا، اور تو فسادیوں میں سے تھا![يونس: 91]

تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر وہ یہ بات غرق ہونے سے پہلے کرتا تو اس کی یہ بات قبول ہو سکتی تھی۔

چنانچہ اگر کوئی کافر شخص ایسی بات کرتا ہے جس سے معلوم ہو کہ وہ دین اسلام میں داخل ہو گیا ہے، اور وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آیا ہے تو اس سے یہ بات قبول کی جائے گی، اس کے مسلمان ہونے کا حکم لگایا جائے گا، پھر اسے شہادتین مکمل طور پر سکھلائی جائیں گی۔

بلکہ اگر کوئی کافر صرف یہ کہتا ہے کہ: "لا الہ الا اللہ" تو تب بھی اس کے مسلمان ہونے کا حکم لگایا جائے گا، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کے متعلق سکھایا جائے گا اور رسالت نبوی کی گواہی بھی اس سے لی جائے گی۔

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ ایسی احادیث جن میں کافر کو شہادتین کی گواہی دینے کا حکم ہے، انہیں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"مذکورہ دلائل اور اسی طرح کے دیگر دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اسلام میں داخلہ شہادتین کے بغیر ممکن نہیں۔

تاہم کچھ ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اسلام میں صرف پہلی گواہی دینے کے بعد سے ہی مسلمان ہو جاتا ہے، یعنی صرف "لا الہ الا اللہ" کہنے سے مسلمان ہو جاتا ہے، ان احادیث میں سے اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے، جس میں ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے ایک مشرک کو میدان جنگ میں دبوچ لیا ، جب اسامہ ان پر مکمل حاوی ہو گئے تو کافر نے "لا الہ الا اللہ" کہہ دیا لیکن اسامہ نے پھر بھی اسے قتل کر دیا، اس کی بابت اسامہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسامہ تم نے اسے "لا الہ الا اللہ" کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا!؟) تو اسامہ نے کہا: جی ہاں؛ کیونکہ اس نے "لا الہ الا اللہ" تو اپنی جان بچانے کے لئے کہا تھا، تا کہ قتل ہونے سے بچ جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسامہ تم نے اسے "لا الہ الا اللہ" کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا!؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم بار بار یہی بات فرماتے رہے، یہاں تک کہ اسامہ کہتے ہیں: مجھے یہ تمنا ہونے لگی کہ کاش میں آج تک مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا۔ کیونکہ اگر یہ گناہ ہونے کے بعد مسلمان ہوتے تو اس گناہ سمیت تمام پاپ دھل جاتے۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ "لا الہ الا اللہ" کہنے سے وہ کافر شخص مسلمان ہو گیا تھا، اور اس نے اپنی جان کو تحفظ فراہم کر دیا تھا۔

 اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے وقت ان کے پاس آئے تو آپ ان سے کہتے رہے: (چچا جان! "لا الہ الا اللہ" کہہ دو، اس کلمے کی بدولت تمہارے لیے اللہ کے ہاں حجت پیش کر سکوں گا) یہاں پر آپ نے کلمہ شہادت کے دوسرے حصے کو ذکر نہیں فرمایا جو کہ "محمد رسول اللہ" پر مشتمل ہے۔۔۔

تو دلائل کی روشنی میں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص "لا الہ الا اللہ" کہہ دے تو وہ اسلام میں داخل ہو جائے گا، پھر اسے "محمد رسول اللہ" کے اقرار کا بھی حکم دیا جائے گا" ختم شد
"الشرح الممتع" (14/464- 466)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب