جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

حائضہ اورنفاس والی عورت سے مباشرت

تاریخ اشاعت : 24-02-2009

مشاہدات : 55537

سوال

کیا حیض اورنفاس کی مدت میں بیوی سے مباشرت جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حیض اورنفاس کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور لذت وتفریح کی تین قسمیں ہیں :

پہلی قسم :

بیوی سے جماع کے ساتھ مباشرت کی جائے ، یہ قسم تو قرآنی نص اورمسلمانوں کے اجماع کے مطابق حرام ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

آپ سے حيض کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو البقرۃ ( 222 ) ۔

دوسری قسم :

ناف سے اوپر اورگھٹنے سے نيچے مباشرت کرنا یعنی بوس وکنار ، اورمعانقہ وغیرہ ، اس کے حلال ہونے پر سب علماء کرام کا اتفاق ہے ۔

دیکھیں شرح مسلم للنووی ۔ اورالمغنی ابن قدامہ ( 1 / 414 ) ۔

تیسری قسم :

ناف اورگھٹنوں کے مابین قبل اوردبر کے علاوہ مباشرت کرنا ۔

اس قسم کے جواز میں علماء کرام کا اختلاف ہے ، امام مالک ، امام شافعی ، امام ابوحنیفہ ، رحمہم اللہ اس کی تحریم کے قائل ہیں ، اورامام احمدرحمہ اللہ تعالی اس کے جواز کےقائل ہے اوربعض مالکیہ ، شافعیہ ، اوراحناف بھی اس کے قائل ہیں ، امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں ، دلائل کے اعتبار سے قوی قول یہی اوراختیاربھی یہی کیا گيا ہے ۔ ا ھـ ۔

جائز قرار دینے والوں نےمندرجہ مندرجہ ذيل دلائل دیے ہیں :

قرآنی دلائل :

فرمان باری تعالی ہے :

حالت حيض میں عورتوں سے الگ رہو ، پاک ہونے سے قبل ان کے قریب نہ جاؤ البقرۃ ( 222 ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی شرح الممتع میں کہتے ہیں :

محیض سے مراد حیض والی جگہ اورمدت مراد ہے ، اوراس کی جگہ شرمگاہ ہے لھذا جب تک وہ حالت حیض میں ہے جماع کرنا حرام ہوگا ۔ ا ھـ دیکھیں شرح الممتع ( 1 / 413 ) ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

خون والی جگہ سے علیدہ رہنے کی تخصیص اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے علاوہ جائز ہے ۔ ا ھـ ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 1 / 415 )

سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے دلائل :

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یھودیوں میں سے کوئي عورت حالت حیض میں ہوتی تو وہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے بھی نہیں تھے اورنہ ہی انہيں اپنے گھروں میں رکھتے تھے توصحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آيت نازل فرمائی :

آپ سے حيض کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو ۔۔۔ آیت کے آخر تک ۔

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جماع کے علاوہ باقی سب کچھ کرو ۔

جب یہودیوں کواس کا پتہ چلا تووہ کہنے لگے اس شخص کوہمارے ہر کام میں مخالفت ہی کرنی ہوتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 302 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

حدیث میں جویہ لفظ آئے ہیں کہ ( لم یجامعوھن فی البیوت ) کا معنی یہ ہے کہ وہ گھروں میں ان سےملتے جلتےاورایک ہی گھرمیں نہیں رکھتے تھے ۔

عکرمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی رضي اللہ تعالی عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حيض کی حالت میں کچھ کرنا چاہتے تو بیوی کی شرمگاہ پر کپڑا ڈال دیتے ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 272 )۔

حافظ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس کی اسناد قوی ہے ا ھـ ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی عنہ نے صحیح ابوداود ( 242 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) نے یہ فتوی دیا ہے :

حیض کی حالت میں خاوند پر اپنی بیوی سے جماع حرام ہے ، لیکن اسے یہ حق ہے کہ جماع کے علاوہ میں وہ مباشرت کرسکتا ہے ۔ ا ھـ

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 5 / 359 ) ۔

اورمرد کےلیے بہتر ہے کہ اگر وہ بیوی سے حیض کی حالت میں استمتاع کرنا چاہے تواسے کہے کہ وہ ناف سے لیکر گھٹنوں تک کوئي چيز پہن لے پھراس کے علاوہ حصہ میں مباشرت کرلے ۔

اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئي ایک حیض کی حالت میں ہوتی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم مباشرت کرنا چاہتے تواسے کہتے کہ وہ چادر باندھ لے اس کے بعد اس سے مباشرت کرتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 302 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2293 ) ۔

ام المومنین میمونہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے حیض کی حالت میں چادرکے اوپر مباشرت کیا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 294 ) ۔

خطابی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : حدیث میں فور حیضتھا کے معنی ہے کہ حیض کے شروع یا پھر اس کی اکثر مدت میں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

جماع کے علاوہ باقی سب کچھ کرو ۔عون المعبود حدیث نمبر ( 2167 )

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ تھذیب السنن میں اس حدیث کی شرع کرتے ہوئے کہتے ہیں :

اس سے ظاہر ہے کہ تحریم توصرف حیض والی جگہ کے بارہ میں ہے جوکہ جماع ہے ، اس کے علاوہ باقی مباح ہے ، اورجن احادیث میں چادر کا ذکر ہے وہ اس سے تعارض نہیں رکھتیں ، اس لیے کہ وہ اس گندگی سے بچنے کےلیے زيادہ بہتر طریقہ ہے ا ھـ کچھ کمی بیشی کے ساتھ ۔

اوریہ بھی احتمال ہے کہ حيض کے ابتدائي اور آخری ايام میں فرق کردیا جائے ، اورخون کے زيادہ آنے کے وقت ناف سے لیکر گھٹنے تک چادر سے ڈھانپنا مستحب ہو جوکہ حیض کے ابتدائی ایام میں ہے ۔

حافظ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اس کی تائید مندرجہ ذيل حدیث کرتی ہے جسے ابن ماجہ رحمہ اللہ نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے :

ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین دن تک خون کی تیزی سے بچتے اوراس کے بعد مباشرت کرتے ۔ ا ھـ کچھ کمی بیشی کے ساتھ ۔

تنبیہ :

اوپر جوبھی احکام بیان کیے گئے ہیں ان میں حيض اورنفاس والی عورتیں سب برابر ہیں ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے حیض کی حالت میں بیوی سے مباشرت کرنے کی اقسام بیان کرنے کے بعد کہا ہے :

اور نفاس والی عورتیں بھی اس میں حيض والیوں کی طرح ہی ہيں ۔ ا ھـ دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 1 / 419 ) ۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب