اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

والد نے بيٹى اور اس كى ماں سے برا سلوك كيا تو بيٹى نے كينہ و بغض ركھا اور يہ چيز اس كے اور خاوند كے تعلقات پر اثرانداز ہوئى

تاریخ اشاعت : 25-03-2012

مشاہدات : 6226

سوال

ميرى دو برس قبل شادى ہوئى الحمد للہ ميرا خاوند ميرے معاملہ ميں اللہ سے ڈرتا ہے، ليكن ميں اپنے اندر نفسياتى طور پر ركاوٹ سى محسوس كرتى ہوں كيونكہ ميرے والد نے ميرے اور ميرے بھائيوں اور والدہ كے ساتھ اچھا سلوك نہيں كيا جس كى بنا پر ميرے اور بھائيوں كے اندر والد كے بارہ ميں كينہ اور بغض بھر گيا، حالانكہ ميں شادى كر كے اس تكليف دہ زندگى والے ماحول سے دور ہو چكى ہوں ليكن ميں والدہ اور بھائيوں كے غم اور پريشانى ميں پريشان ہوئے بغير نہيں رہ سكتى، كيونكہ وہ اب تك پريشان ہيں جس كے نتيجہ ميں ميرے خاوند كے ساتھ معاملات پر بھى اثرپڑتا ہے، حالانكہ ميرا خاوند ميرا احترام بھى كرتا ہے.
ليكن جب وہ اكثر اوقات پريشان ديكھتا ہے تو اس كا صبر جاتا رہتا ہے وہ خيال كرنے لگتا ہے كہ ميں ماحول كو سوگوار بنانا پسند كرتى ہوں، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ كيا كروں ؟
اسى طرح ہم سب بہن بھائى والد صاحب كے برے سلوك كى بنا پر ان كا احترام نہيں كر سكتے، ہميں اپنے اس بغض كو ختم كرنے كے ليے كيا كرنا ہوگا ؟
يہ علم ميں رہے كہ ہم والد صاحب كا احترام كرنے كى كوشش تو كرتے ہيں، ليكن والد صاحب كسى كا احترام نہيں كرتے، اور انہيں مشكل درپيش ہے كہ وہ اپنے سے افضل شخص كو ناپسند كرتے ہيں، اور ان ميں ايك اور چيز پائى جاتى ہے كہ وہ اپنے آپ كو امتياز كرنے اور اونچا ہونا پسند كرتے ہيں يعنى وہ چاہتے ہيں كہ لوگ يہ سمجھيں كہ وہ بہت مالدار ہيں حالانكہ والد صاحب تو لوگوں كے مقروض ہيں، برائے مہربانى ميرى مدد فرمائيں كہ ہميں كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كے والد كے متعلق گزارش ہے كہ آپ كے ليے والد كو مسلسل نصيحت كرنا چاہيے، اور اسے ياد دلائيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے اپنے اور اس كے بيوى بچوں كے بارہ ميں اس پر كيا واجب كيا ہے.

والد كو نصيحت كرنے كے ليے مختلف طريقے اختيار كرنا ضرورى ہيں، كيونكہ ہو سكتا ہے آپ كى جانب سے نصيحت سننا گوارہ نہ كرے، ليكن آپ لوگ نااميد مت ہوں بلكہ اسے اپنے رشتہ داروں يا والد كے دوستوں كے ذريعہ نصيحت ضرور كريں، اور يہ بھى ممكن ہے كہ آپ والد كو وعظ و نصيحت پر مشتمل كوئى كيسٹ سنا ديں.

دوم:

آپ اپنے خاوند كے بارہ ميں اللہ كا تقوى و ڈر اختيار كريں آپ كے ليے يہ جائز نہيں كہ اپنے گھر والوں كے غم و پريشانى آپ اپنے خاوند كے گھر منتقل كر ديں اور انہيں خاوند پر ڈال ديں، اور خاص كر جب خاوند آپ كے ساتھ حسن سلوك كرتا ہے اور آپ اس سے كوئى برا سلوك نہيں ديكھ رہيں تو آپ كے ليے واجب و ضرورى ہے كہ آپ بھى خاوند سے حسن سلوك كريں اور اس كى شكر گزار ہوں، اللہ سبحانہ و تعالى كا يہى حكم ہے.

سوم:

كوئى بھى نفس اور جان مرض اور كوتاہى و غلطى سے خالى نہيں ـ مگر جس پر اللہ رحم كرے ـ آپ كا والد اپنے آپ كو ظاہر كرنا چاہتا ہے اور اپنے آپ كو دوسرے لوگوں سے اوپر ديكھتا ہے، يہ ايك ايسا امر ہے جس ميں آپ لوگوں كو اپنے والد پر شفقت كا سلوك كرنا چاہيے نا كہ بغض و كينہ كا.

اور يہ كہ اس نے آپ لوگوں كے ساتھ برا سلوك كيا اور اب تك برا سلوك كرتا ہے يہ تو آپ كے دلوں ميں اس پر نرمى و رحمدلى كا موجب ہے، كيونكہ اگر وہ اسى حالت ميں فوت ہو جائے اور اپنے پروردگار سے جا ملے تو تو اسے ان اعمال كى بنا پر بہت زيادہ گناہ ہوگا، اس ليے آپ كو اس پر رحم كرنا چاہيے اور اسے سمجھائيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تيرے والدين تجھے اس پر ابھاريں كہ تو ميرے ساتھ شرك كرے جس كا تجھے كوئى علم نہيں تو پھر تم ان دونوں كى اطاعت مت كرو، اور دنيا ميں ان كے ساتھ حسن سلوك كرو، اور جو ميرى طرف رجوع كرتا ہے اس كے راہ كى پيروى كرو، پھر تم سب كا ميرى طرف ہى پلٹنا ہے تو ميں تمہيں ان اعمال كى خبر دوں گا جو تم كرتے رہے ہو لقمان ( 15 ).

اور ديكھيں يہ ابراہيم عليہ السلام اپنے مشرك والد سے بڑے ادب و احترام كے ساتھ بات چيت كر رہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے درج ذيل فرمان ميں ذكر كيا ہے:

اور كتاب ميں ابراہيم عليہ السلام كا بھى ذكر كريں يقينا وہ سچا نبى تھا

جب اس نے اپنے باپ سے كہا اے ابا جان آپ ان بتوں كى عبادت كيوں كرتے ہيں جو نہ تو سنتے ہيں اور نہ ہى ديكھتے ہيں اور نہ ہى آپ كا كوئى فائدہ كر سكتے ہيں

اے ابا جان يقينا ميرے پاس وہ علم آيا ہے جو آپ كے پاس نہيں آيا اس ليے آپ ميرى بات مان ليں ميں آپ كو سيدھى راہ كى راہنمائى كر رہا ہوں

اے ابا جان شيطان كى عبادت نہ كريں يقينا شيطان اللہ رحمن كا نافرمان ہے، اے ابا جان مجھے ڈر ہے كہ آپ كو اللہ رحمن كى جانب سے عذاب پہنچےگا تو آپ شيطان كے دوست بن جائيں گے

اس نے جواب ديا اے ابراہم كيا تو ميرے معبودوں سے بےرغبتى كر رہا ہے، اگر تم باز نہ آئے تو ميں تمہيں رجم كر دوں گا تم مجھے ايسے ہى رہنے دو

{ ابراہيم عليہ السلام نے كہا آپ پر سلامتى ہو، ميں آپ كے ليے اپنے رب سے بخشش مانگوں گا يقينى وہ ميرے ساتھ بڑا ہى مہربان ہے مريم ( 41 - 47 ).

ديكھيے نبى ابراہيم عليہ السلام كا اپنے مشرك والد كے ساتھ كيسا ادب و احترام ہے، اور وہ كس طرح اپنے مشرك والد كو مخاطب كرتے ہيں حالانكہ باپ اپنے مسلمان بيٹے كو رجم كرنے كى دھمكى دے رہا ہے، اس واقعہ ميں عظيم اور بليغ فائدہ اور درس ہے كہ اگر كوئى ايسى حالت ميں مبتلا ہو جائے تو اسے اپنے والدين كے ساتھ كيسے سلوك كرنا چاہيے ايك نبى ايسا سلوك كر رہا ہے تو اس سے كم درجہ شخص كا حال كيسا ہونا چاہيے ؟!

چہارم:

رہا آپ كو جو غم و پريشانى ہوئى ہے اسے آپ اپنے اعمال كو معطل كرنے والى چيز نہ بنا ليں، كہ يہ پريشانى آپ كو اطاعت و فرمانبردارى سے دور دھكيل دے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كے واجب كردہ حقوق ميں كوتاہى كرنے كا باعث بننے لگے، مثلا آپ پر اللہ نے جو خاوند كے حقوق واجب كيے ہيں ان ميں كوتاہى كا ارتكاب ہو، اور اسى طرح آپ كے والد كو دعوت دينے كے سلسلہ ميں جو كچھ آپ پر واجب ہوتا ہے اس ميں كوتاہى كرنے لگيں.

ہم آپ كو وقائى يعنى بچانے والى دعا اور دوسرى دعائے علاج كى وصيت كرتے ہيں.

دعائے وقائى يہ ہے كہ:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ دعا كيا كرتے تھے:

" اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والجبن والبخل وضَلَع الدين وغلبة الرجال "

اے اللہ ميں غم و پريشانى اور عاجزى و كسل اور بزدلى و بخل اور قرض كے بوجھ اور آدميوں كے غلبہ سے تيرى پناہ مانگتا ہوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6008 ).

دعائے علاج يہ ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

جس شخص كو بھى كبھى كوئى غم و پريشانى پہنچے اور وہ يہ دعا پڑھے تو اللہ تعالى اس كى پريشانى و غم دور كر ديتا ہے، اور اس كے بدلے ميں اسے اس پريشانى سے نجات دے ديتا ہے.

" اللهم إني عبدك وابن عبدك وابن أمتك ناصيتي بيدك ماضٍ فيَّ حكمك عدل فيَّ قضاؤك ، أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أو علمته أحداً من خلقك أو أنزلته في كتابك أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري وجلاء حزني وذهاب همي "

اے اللہ ميں تيرا بندہ اور تيرے بندے كا بيٹا ہوں، اور تيرى بندى كا بيٹا ہوں، ميرى پيشانى تيرے ہاتھ ميں ہے، مجھ پر تيرا حكم چلتا ہے، ميرے بارہ ميں تيرا فيصلہ انصاف پر مبنى ہے، ميں تجھ سے ہر اس نام كے ساتھ سوال كرتا ہوں جو تو نے اپنا نام ركھا ہے يا مخلوق ميں سے كسى كو سكھايا ہے، يا اسے اپنى كتاب ميں نازل كيا ہے، يا اسے اپنے پاس علم غيب ميں محفوظ ركھا ہے، كہ تو قرآن مجيد كو ميرے دل كى بہار بنا دے اور ميرے سينہ كا نور اور ميرے غم و پريشانيوں كو دور كرنے والا بنا دے "

راوى كہتے ہيں: عرض كيا گيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم اسے سكھا نہ ديں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيوں نہيں جس نے بھى اسے سنا اس كے ليے اسے آگے سكھانا ضرورى ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 3704 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 199 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب