الحمد للہ.
اول:
شرعی علم حاصل کرنے کی اسلام میں بہت زیادہ قدر و منزلت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے شرعی علم اور علمائے کرام کی مدح سرائی فرماتے ہوئے کہا: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الألْبَابِ ترجمہ: کہہ دیجیے: کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ یقیناً نصیحت عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں۔ [الزمر: 9] اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی کے بندوں میں سے علما ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔[فاطر: 28]
اسی طرح حمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں: میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہے تھے: "میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لے اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔)" اس حدیث کو امام بخاری: (71) اور مسلم : (1037) نے روایت کیا ہے۔
ایسے ہی سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص کسی راستے میں حصول علم کی خاطر چلا ہو ، تو اللہ تعالی اسے جنت کی راہوں میں سے ایک راہ پر چلائے گا ۔ اور بلاشبہ فرشتے طالب علم کی رضا مندی کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں ، اور صاحب علم کے لیے آسمانوں میں بسنے والے ، زمین میں رہنے والے اور پانی کے اندر مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں ۔ اور بلاشبہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کہ چودھویں کے چاند کی سب ستاروں پر ہوتی ہے ، بلاشبہ علما انبیائے کرام کے وارث ہیں اور انبیائے کرام نے کوئی درہم و دینار ورثے میں نہیں چھوڑے ۔ انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے ۔ جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے بڑا وافر حصہ پایا ۔) اس حدیث کو ترمذی: (2682 ) ، ابو داود : ( 3641 ) ، ابن ماجہ: ( 223 )نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے " صحيح الترغيب " ( 1 / 17 ) میں حسن قرار دیا ہے۔
شرعی علم کے ذریعے انسان دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرتا ہے، بلکہ شرعی علم کو دیگر تمام علوم پر ترجیح حاصل ہے؛ خصوصاً ایسی صورت میں جب نیت بھی خالص ہو۔
دوم:
حصولِ علم کے سفر کا آغاز کرنے کے لیے سب سے بہترین کام یہ ہے کہ قرآن کریم حفظ کریں؛ یہ ایسا عمل ہے کہ جس کے لیے لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اور خوب محنت کرتے ہیں، جسے بھی علم کی تشنگی ہے وہ سب سے پہلے یہی کام کرتا ہے۔
قرآن کریم حفظ کرنے کی خوبیاں جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (14035 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسی طرح قرآن کریم حفظ کرنے کے اصول و قواعد جاننے کے لیے سوال نمبر: ( 11561 ) کا مطالعہ کریں۔
سوم:
طالب علم کے لیے حصولِ علم کا راستہ آسان بنانے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ علم کی آبیاری کرنے والے علمائے کرام اور مشائخ کی صحبت میں وقت گزارے؛ کیونکہ حصولِ علم کا مختصر ترین راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی کو اچھا استاد میسر کر دے، یا علوم نبوت کا ماہر دستیاب کر دے کہ جس کے پاس رہتے ہوئے انسان علم حاصل کرے۔
چہارم:
نظام الاوقات ترتیب دینے کے لیے درج ذیل نکات پر عمل پیرا ہوں:
الف: پہلے ان کاموں کے وقت مقرر کریں جو روزانہ کرنے ہیں، مثلاً: سونے کا وقت، کھانے کا وقت، ملنے جلنے کا وقت، کلاس کا وقت، اور سرکل اسٹڈی کا وقت۔
ب: وقت کو قیمتی بنانے اور وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے معاون امور میں یہ بھی شامل ہے کہ جس چیز سے بھی وقت ضائع ہوتا ہو اسے آغاز میں ہی فوری طور پر ختم کر دیا جائے، مثلاً: بہت زیادہ سونا، بسیار خور و نوش، شرعی فوائد کے بغیر باہمی ملاقاتیں کرنا، صرف گپ شپ کے لیے ملنا جلنا۔ وقت ضائع کرنے والی سرگرمیوں سے بچیں، ڈرامے، ٹی وی شو، مختلف جریدے اور مجلے، گیم، ٹورنامنٹ، اور مقابلوں میں اپنا وقت ضائع مت کریں۔
الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طالب علم اپنے وقت کو ضائع کرنے سے بچائے ، وقت ضائع کرنے کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں:
پہلی صورت: انسان علم حاصل کرنے کے بعد باہمی مذاکرہ نہ کرے اور جو کچھ پڑھ لیا ہے اس کی دہرائی نہ کرے۔
دوسری صورت: دوستوں کے ساتھ فضول گپ شپ میں وقت ضائع کر دے۔
تیسری صورت: یہ صورت سب سے خطرناک ہے کہ: انسان صرف لوگوں کی باتوں کے پیچھے لگا رہے، کیا کہا، کیا کہا گیا، کیا ہوا اور کیا ہونے والا ہے وغیرہ جیسی لایعنی باتیں کہ جن سے اس شخص کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے، تو یہ یقیناً اس شخص کے کمزور مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے؛ ویسے بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (انسان کے بہترین مسلمان ہونے کی علامت ہے کہ انسان لا یعنی چیزوں کی طرف توجہ نہ دے۔)اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (2318) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
قیل و قال اور بہت زیادہ سوالات کرنا: یہ بھی وقت ضائع کرنے کی صورت ہے، اگر یہ چیز کسی انسان میں پیدا ہو جائے تو یہ بھی ایک بیماری ہے اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے۔ اس کی وجہ سے انسان کسی سے دشمنی رکھنے لگ جاتا ہے اگرچہ وہ دشمنی کے لائق نہ ہو، اور کسی سے دوستی رکھنے لگ جاتا ہے اگرچہ وہ دوست بنانے کے قابل نہ ہو؛ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ان امور میں پھنس کر حصولِ علم سے دور ہو جاتا ہے، اور دعوی یہ کرتا ہے کہ یہ بھی حق کی مدد کے زمرے میں آتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسے نہیں ہے، بلکہ یہ لا یعنی چیزوں میں اپنے آپ کو مشغول کرنے میں آتا ہے، البتہ اگر آپ کے پاس کہیں سے خبر آ جائے اور آپ ان خبروں کو تلاش بھی نہ کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خبریں تو ہر انسان تک پہنچتی ہیں، لیکن انسان اپنے آپ کو اس کام میں ہلکان مت کرے، اپنی زندگی کا مقصد ایسی ہیچ چیزوں کو مت بنائے؛ کیونکہ پھر انسان علم حاصل نہیں کر پاتا، انسان کے تمام معاملات بگڑ جاتے ہیں، اور امت میں حزبیت کا دروازہ کھل جاتا ہے اور امت بکھر کر رہ جاتی ہے۔
" كتاب العلم " ( ص 143 ، 144 )
ت: وقت کو منظم اور قیمتی بنانے کے حوالے سے نقصان دہ بات یہ بھی ہے کہ آج کا کام کل پر چھوڑیں، یہ بہت بڑی بیماری ہے جو کہ انسان کو بہت سے دینی ، دنیاوی مفادات سے محروم کر دیتی ہے۔
ث: دنیا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ : انسان اپنے آپ کو ہر وقت کسی بھی ایسے کام میں مصروف رکھے جو اس کے لیے سب سے بہترین ہو، اور آخرت کے لیے مفید ترین ہو، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "افضل ترین عبادت یہ ہے کہ: آپ ہمہ وقت رضائے الہی کی جستجو میں ایسے لگے رہیں جیسے اس وقت کا تقاضا ہے اور اس کی ذمہ داری ہے۔" ختم شد
" مدارج السالكين " ( 1 / 88 )
ج: جس قدر ممکن ہو سکے وقت سے فائدہ اٹھائیں، ایک لمحہ بھی گناہ اور نافرمانی میں نہ لگائیں ہر وقت کسی نہ کسی نیکی میں مصروف رہیں، اس حوالے سے سلف صالحین رحمہم اللہ نے اپنے اوقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت ہی دل کش مثالیں پیش کی ہیں، چنانچہ ابو نعیم اصفہانی (متوفی: 430 ہجری)آپ رحمہ اللہ دنیا کے بہت بڑے حافظ الحدیث تھے، لوگ آپ کے پاس اکٹھے ہو کر علم حاصل کرتے تھے ، روزانہ ایک شخص ظہر سے پہلے تک جو چاہتا پڑھتا تھا، پھر جب آپ اٹھ کر گھر جانے لگتے تو راستے میں جاتے جاتے بھی طلبہ کا سبق سنتے، اور آپ رحمہ اللہ کو کبھی بھی اس سے کوفت نہیں ہوئی۔
اسی طرح سلیم رازی رحمہ اللہ شافعی المسلک تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن آپ کے گھر پہنچا اور راستے میں انہیں ایک پارہ پڑھ کر سنایا۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ خطیب بغدادی کی سوانح لکھتے ہوئے کہتے ہیں: خطیب بغدادی رحمہ اللہ چلتے ہوئے بھی ورق گردانی کر رہے ہوتے تھے۔
ابن عساکر رحمہ اللہ کے متعلق انہی کے اپنے بیٹے کہتے ہیں کہ: چالیس سال سے خلوت و جلوت ہر حالت میں صرف با جماعت نماز ادا کرنے اور تسمیہ پڑھنے کے علاوہ کسی کام میں مصروف نہیں ہوتے، اور ہر وقت اپنے ساتھ کتابیں رکھتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور دہرائی کرتے ہیں۔
سلف صالحین ایک وقت میں کئی کام کرتے ہوئے اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ قیمتی بناتے تھے، چنانچہ اگر لکھتے لکھتے قلم ٹوٹ گیا اور اسے گھڑنے کی ضرورت محسوس ہوتی تو قلم تراشتے ہوئے زبان سے اللہ کا ذکر کرتے تھے، یا پھر ہاتھ سے قلم تراشتے اور زبان سے یاد کی ہوئی چیزوں کو دہرانے لگ جاتے کہ کہیں وقت فراغت میں ضائع نہ ہو جائے۔
ابو الوفا علی بن عقیل رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ : میرے لیے ایک لمحہ بھی ضائع کرنا حلال نہیں ہے، حتی کہ اس وقت بھی جب میری زبان مذاکرہ میں مشغول نہ ہو اور میری آنکھیں مطالعہ نہ کر رہی ہوں: کیونکہ اس وقت میں اپنے ذہن سے کچھ نہ کچھ کام کر رہا ہوتا ہوں، اس طرح جب میں بیدار ہوتا ہوں تو جو کچھ میں نے لکھنا ہوتا ہے میں اس کی منصوبہ بندی کر چکا ہوتا ہوں۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہیں سر درد یا بخار وغیرہ جیسی بیماری لاحق ہو تو کتاب اپنے سر کے پاس رکھتے تھے، جب بھی کچھ افاقہ محسوس کرتے تھے پڑھنے لگ جاتے تھے اور جب تھک جاتے تو رکھ دیتے تھے۔
ج: ٹائم ٹیبل اور نظام الاوقات کو درج ذیل انداز سے ڈیزائن کریں:
1-طالب علم کا ٹائم ٹیبل فجر سے شروع ہوتا ہے، اور فجر کا وقت قرآن کریم ، احادیث اور متون یاد کرنے کا وقت ہے؛ چنانچہ یاد کرنے والی چیزیں خصوصاً قرآن کریم یاد کرنے کے لیے سحری اور فجر کی نماز کے بعد کا وقت بہترین ہے؛ کیونکہ اس وقت ذہن تازہ ہوتا ہے، اور اس وقت چیزیں بہت جلدی یاد ہوتی ہیں، لہذا مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد سورج طلوع ہونے تک یا اس کے بعد بھی مسجد میں رہے اور یاد کرنے والی سورتیں یاد کرے، پیچھے سے دہرائے، جب قرآن کریم کا سبق یاد ہو جائے تو پھر احادیث، فقہ، اصول اور لغت وغیرہ کے متون یاد کرے۔
2-اب اگر آپ نے کام پر جانا ہے، یا پڑھنے جانا ہے تو اس کے لیے جائیں، وگرنہ صبح کا وقت ظہر تک حفظ اور دہرائی میں لگائیں، پھر قیلولہ کر کے اپنے جسم کو سکون پہنچائیں۔
3-عصر کے بعد انفرادی مطالعہ کریں، یا مل جل کر پڑھیں، یا مختلف لیکچرز سنیں، یا دہرائی کر لیں۔
4-مغرب کے بعد علمی دروس سنیں ، اور عشا کی نماز کے بعد لکھی ہوئی چیزوں کی دہرائی کر لیں، یا اس وقت میں بھی مطالعہ کریں۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہماری ذکر کردہ ترتیب اجمالی ترتیب ہے، وگرنہ مرتب انداز سے شیڈول بنانے کے لیے ہر شخص اپنی اپنی مصروفیات کو مد نظر رکھ کر نظام الاوقات مرتب کرے گا، اس لیے کہ پڑھنے والا شخص ملازمت پیشہ فرد جیسا نہیں ہو سکتا، شادی شدہ فرد غیر شادی جیسا نہیں ہو سکتا، ایسے ہی جس کے پاس کھلا ٹائم ہے وہ اور جس کے پاس مصروفیات کے انبار ہیں دونوں یکساں نہیں ہو سکتے اسی طرح دیگر افراد بھی ہیں۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ وقت کو مرتب کرتے ہوئے دن یا رات کے اوقات میں ایسے لمحات ہونے چاہییں جن میں انسان چیزوں کو یاد کرے اور پڑھے؛ کیونکہ دل تو چاہتا ہے کہ سکون کرے، سستی سے کام لے، تو یہاں انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو محنتی اور چاق و چو بند بنائے، اپنے آپ کو منظم اور مرتب انداز سے رہنے کا عادی بنائے، اطاعتِ الہی کا خصوصی اہتمام کرے وگرنہ پہلے دن ضائع ہو گا اور پھر عمر بھی ضائع ہو جائے گی۔
اسی طرح آدابِ طالب علم کا مطالعہ کرنے کے لیے سوال نمبر: (10324 ) کا مطالعہ کریں۔
نیز درج ذیل لنک سے تحریری لیکچر کا بھی مطالعہ کر سکتے ہیں
واللہ اعلم