الحمد للہ.
بہن بھائيوں كےمابين اس طرح كا واقعہ ہونا بہت افسوس ناك ہے اور پھر جب اختلاف كا سبب مال ہوتو اور بھي زيادہ افسوس كا مقام ہے ، ميں سوال كرنے والي بہني كا حقيقي شكريہ ادا كرتا ہوں كہ اس نے بہت عقلمندي كا ثبوت ديا اوربھائي كےساتھ جھگڑے ميں پڑنے كي بجائے سلامتي كوترجيح دي اور بڑي خوشي سے يہ كام كيا ، اور اس معاملے كوگھريلو طور پر خاندان كےاندر ہي حل كرنے كي كوشش كي جوكہ بذاتہ اس معاملہ كوابتدائي طور پر حل كرنے كا بہت اچھا اور بہتر طريقہ ہے .
رہا سوال كا جواب تومندرجہ ذيل نقاط ميں اس بيان كيا جاتا ہے:
اول:
آپ كےوالد نے جومال آپ كےليے جمع كيا اور كےليے مشكلات بھي اٹھائيں تا كہ آپ لوگ اس مال سے فائدہ حاصل كرسكيں يہ ان سب افراد كا حق ہے جس كےليے اللہ تعالي نے وراثت ميں حق ديا ہے ، آپ ميں سے ہر ايك فرد والد كي وفات كےبعد شرعي حصہ كا مالك ہے اور كسي بھي فرد كےليے جائز نہيں كہ وہ باقي ورثہ كوچھوڑ كرسارا مال خود ہي ہڑپ كرجائے اس طرح وہ دوسروں كي تلفي كرےگا .
اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے :
اور زيادتي نہ كرو يقينا اللہ تعالي زيادتي كرنےوالوں سے محبت نہيں فرماتا البقرۃ ( 190 )
اور حديث ميں ہے ابوحرۃ الرقاشي اپنے چچا سےبيان كرتے ہيں كہ انہوں نے فرمايا ميں نے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي اونٹني كي لگام پكڑي ہوئي تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كسي بھي شخص كا مال اس كي رضامندي كےبغير لينا حلال نہيں . مسند احمد ( 20172 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے ارواء الغليل ( 1761 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .
تواس بنا پر آپ كےبھائي نے رقم لينا والا كام كيا ہے وہ حرام شمار ہوتا ہے ، اور خاص كر والد كا مال اس كي زندگي ميں ہي ہڑپ كرليا حالانكہ وہ مال كا حقدار توصرف والد كي وفات كےبعد تھا اور وہ بھي اتنا جواللہ تعالي نے اس كےليے وراثت كي تقسيم ميں ركھاہے ، لھذا اس بنا پر آپ كےبھائي كوچاہيے كہ وہ اپنے كيے كي اللہ تعالي سے توبہ كرے اور حقداروں كوان كےحقوق لوٹائے .
دوم :
آپ كےوالد نےجووصيت كي ہے وہ غير شرعي وصيت ہے اور آپ كےليے اس كا مطالبہ كرنا جائز نہيں كيونكہ وارث كےليے خصوصي وصيت كرني جائز نہيں اس كي دليل رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
( بلاشبہ اللہ تعالي نے ہر حقدار كواس كا حق دےديا ہے لھذا وارث كےليے وصيت نہيں ہے ) سنن ترمذي ( 2120 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح سنن ترمذي ( 1722) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .
لھذا تہمارے ليے اس وصيت كا مطالبہ كرنا جائزنہيں - اور اگرآپ كےبھائي نے آپ كا مال لے ليا ہے - توتم اپنے حصہ كي وارثت كا مطالبہ كرسكتي ہو .
سوم :
ان كےبارہ ميں آپ كا موقف يہ ہے كہ : آپ انہيں نصيحت كرتي رہيں اور انہيں اكٹھےكرنے كي حتي الوسع كوشش اوراس كي جانب ان كي راہنمائي كريں ، يہ ياد ركھيں كہ اس كام پرآپ كواللہ تعالي كي جانب سے اجر عظيم حاصل ہوگا .
اللہ تعالي كا فرمان ہے:
ان كےاكثر خفيہ مشوروں ميں كوئي خيروبھلائي نہيں ، ہاں بھلائي اور خير اس مشورہ ميں ہے جوخيرات كرنا يا نيك بات يا لوگوں ميں صلح كرانےكا حكم دے ، اور جوشخص صرف اللہ تعالي كي رضامندي حاصل كرنے كےارادہ سےيہ كام كرے يقينا ہم اسے اجر عظيم سے نوازيں گے النساء ( 114 )
آپ اپني بہنوں سےبار بار يہي كہيں كہ وہ صرف اپنےحقوق كامطالبہ كريں ، اور ايك تہائي حصہ كا مطالبہ كرنا جائز نہيں ، اور آپ اپنےبھائي كے ساتھ بھي اچھے اور بہتر انداز ميں كوشش جاريں ركھيں كہ وہ بہنوں كوان كےمال حقوق ادا كردے ، اوروالد كي وفات كےبعد بہنوں پر شفقت ورحمت كرے نہ كہ انہيں تكليف دے اور ان كےليے عذاب بن جائے، ليكن اس ميں كوئي شك نہيں كہ آپ كواس راہ ميں مشكلات آئيں گي ليكن آپ ان پر صبر كريں ، ہم اللہ تعالي سے دعا گوہيں كہ آپ كواس پر ثابت قدمي دے.
چہارم :
جب آپ حق پر ہيں توپھرآپ كو كسي ملامت كرنےوالے كي ملامت اور نہ ہي يہ الزام كہ آپ دونوں فريقوں ميں سے كسي ايك كي طرفداري كر رہي ہيں كوئي نقصان نہيں دے گا بس آپ حق پر ثابت قدم رہيں .
اور آخر ميں ہم آپ سب كويہ دعوت ديتےہيں كہ اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرو اور اس سےڈرتے ہوئے اس ذلت والےاختلاف كوختم كردو جس سے صرف شيطان اور وہ شخص ہي خوش ہوگا جس كےدل ميں حسد وكينہ اور بيماري رچي ہوئي ہے .
ميري اللہ تعالي سےدعا ہے كہ وہ آپ كےمابين صلح كروائے ، اور اللہ تعالي ہمارےنبي محمد صلي اللہ عليہ وسلم پر اپني رحمتيں برسائے .
واللہ اعلم .