جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

دو بچوں كى ہندو ماں كا قبول اسلام اور اس كى مشكلات

تاریخ اشاعت : 19-11-2009

مشاہدات : 9880

سوال

ميں نے سوال نمبر ( 2803 ) كے جواب ميں پڑھا جس ميں آپ نے سوال كرنے والى كو اپنى شادى كے اعلان كى نصيحت كى ہے كيونكہ يہى سنت ہے جيسا كہ ميں نے ايك دوسرے سوال ميں پڑھا ہے كہ كئى ايك اسباب كى بنا پر والدين نے اپنے بيٹے يا بيٹى كى شادى كى رغبت كو ٹھكرا ديا ہے تو اس سلسلہ ميں آپ اس بہن كو كيا نصيحت كرتے ہيں:
ايك عورت جس كا خاوند ہندو ہے اس كو طلاق ہو چكى اور پھر اس عورت نے اسلام قبول كر ليا كيونكہ وہ حق كو پہچان گئى اور اسے صراط مستقيم كى راہنمائى حاصل ہو گئى ہے الحمد للہ.
اس نے اپنے خاندان والوں سے كسى معروف سبب كى بنا اپنا اسلام مخفى ركھا، ليكن اس كے دونوں بچے ابھى تك ہندو ہى ہيں، اس ليے كہ اس كا سابقہ خاوند اسلام دشمن ہونے كى بنا پر بيوى كو قتل كرنا بہتر سمجھتا ہے كہ اس كے دونوں بچے اسلام قبول كر ليں، وہ شخص دين اسلام اور اللہ سبحانہ و تعالى پر كئى ايك موقع پر سب و شتم بھى كر چكا ہے.
يہ بہن اب ايك دين والے مسلمان شخص كو پسند كرتى ہے جو اخلاق عاليہ كا مالك ہے، ليكن مشكل يہ درپيش ہے كہ اس شخص كے والدين اس شادى كے خلاف ہيں، اس كى والدہ كا اعتقاد ہے كہ جو نئے مسلمان ہوتے ہيں وہ اچھے نہيں ہوتے بلكہ وہ كہتى ہے " يہ ممكن ہى نہيں ہو سكتا كہ وہ كسى دن ہم ميں سے ہوں "
جب وہ شادى كا فيصلہ كرے تو كيا دونوں كے ليے اس شادى كو ان اسباب كى بنا پر خفيہ ركھنا جائز ہے ؟
جو شخص اس عورت سے شادى كرنا چاہتا ہے وہ ان دونوں بچوں كو اپنے ساتھ ركھنے پر متفق ہيں، اور وہ انہيں اسلام كى دعوت دے كر انہيں مسلمان بنائيں گے، وہ شخص كہتا ہے كہ ايك ہى گھر ميں دو دين پر عمل نہيں ہو سكتا.
ان دو مشكلات كى موجودگى ميں وہ دونوں كس طرح زندگى بسر كر سكتے ہيں، يعنى خاوند كى جانب سے گھر والوں كى مشكل، اور بيوى كى جانب سے سابقہ خاوند جو اپنے بچوں كو اسلام ميں داخل نہيں ہونے ديتا، اور ميرى يہ سہيلى بچوں كى پرورش كا حق چھنوانا نہيں چاہتى كيونكہ ان كا باپ برے اخلاق كا مالك ہے اور ان پر ظلم و زيادتى كريگا.
برائے مہربانى اس بہن كو جلد از جلد كوئى ايسى نصيحت كريں جو اس كو مشكلات سے نكالنے كا باعث بن سكے، كيونكہ وہ رات كو بھى سو نہيں سكتى، و صلى اللہ علي نبى محمد عليہ السلام.

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 ـ سب سے پہلے تو ہم سوال كرنے والى بہن كو اسلام قبول كرنے پر مباركباد ديتے ہيں، يہ ايك ايسى سعادت وخوشبختى ہے جس كے ليے مال اور جان سب كچھ لٹائى جاتى ہے، اسلام كى نعمت كے ساتھ ہر غم اور پريشانى ختم ہو جاتى ہے اور اس كى كوئى قيمت نہيں رہتى.

2 ـ سائلہ بہن كا يہ كہنا كہ: وہ ايك مسلمان شخص سے محبت كرتى ہے :

ہم كہتے ہيں كسى بھى مسلمان عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ بھى اسى طرح حرام قسم كے تعلقات اور فحاشى ميں پڑ جائے جس طرح دوسرى عورتيں پڑى ہوئى ہيں، اور وہ اس محبت كى دلدل ميں پھنس جائے جس كے بارہ ميں پڑھا اور سنا جاتا ہے، يہ تو شيطان كى چال اور ہتھكنڈہ ہے جسے وہ مزين كر كے پيش كرتا ہے، اور غالب طور پر اللہ كے حرام كردہ امور ميں پڑنے كا باعث بنتا ہے.

اور جس كسى كو بھى كوئى لڑكى پسند آئے اور اچھى لگے تو اس كے ليے صرف ايك ہى حل ہے كہ وہ لڑكى كے ولى سے اس كى رشتہ طلب كرے تا كہ اس سے عقد نكاح كر كے تعلقات قائم كرے.

3 ـ اور اس شخص كے والد كا يہ كہنا كہ " نيا اسلام قبول كرنے والے مسلمان كا اچھا ہونا ممكن نہيں " يہ قول باطل اور غير صحيح ہے، اگر ديكھا جائے تو پھر صحابہ كرام نے بھى شرك كو چھوڑ كر اسلام قبول كيا اور وہ بھى تو نئے مسلمان ہوئے؟! تو كيا كوئى مسلمان شخص ان كے دين اور اخلاق ميں شك كر سكتا ہے ؟

اور اسى طرح بہت سارے نئے مسلمانوں ميں ہم نے بہت خير و بھلائى ديكھى ہے جو خاندانى مسلمانوں ميں نہيں پائى جاتى بلكہ نئے مسلمانوں ميں كئى گناہ زيادہ ہوتى ہے!.

نئے مسلمان ہونے كا يہ معنى نہيں كہ وہ اچھا نہيں ہوگا اور اسى طرح خاندانى اور پرانا مسلمان ہونے كا يہ معنى نہيں ہو سكتا كہ وہ اچھا ہے، بلكہ اس ميں تو تقوى اور عمل صالح كا اعتبار كيا جائيگا، ليكن پہلے سے اللہ كى عبادت كرنا اور اسلام ميں سبقت لے جانے كى سبقت باقى رہےگى.

4 ـ اس ميں كوئى مانع نہيں كہ آدمى كى شادى كا اس كے والدين كو علم نہ ہو، اور خاص كر جب اس كى شادى ايسى لڑكى سے ہو جس ميں اس كى مصلحت پائى جاتى ہے، اور اس كى معاونت كرنے اور مشكلات ميں ساتھ دينے والے تو بہت ہى كم ہوں.

شريعت ميں تو عورت كا ولى معتبر ہے نہ كہ مرد كا، اگرچہ ہم يہ پسند كرتے ہيں كہ مرد كے گھر والے بھى اس عورت سے شادى پر موافق ہوں تو بہتر ہے اور اس كے ليے انہيں راضى كيا جائے كيونكہ اس ميں بہت بڑى مصلحت پائى جاتى ہے جو كہ شادى كے معاملہ كو خفيہ ركھنے ميں مفقود ہو سكتى ہے.

5 ـ خاوند كا يہ كہنا كہ وہ والدين كو دين اسلام كى دعوت دينا چاہتا ہے، يہ بہت اچھى بات اور ايك اچھا عمل ہے اللہ اس كى توفيق دے، ہمارى دعا ہے كہ اللہ اس كى معاونت فرمائے، اور ان كے ہندو مجرم والد كے شر سے انہيں محفوظ ركھے.

ہم ان دونوں كو نصحيت كرتے ہيں ـ اگر ان كى شادى ہو جائے ـ اگر والدين كو دين اسلام كى دعوت دينے كے نتيجہ ميں انہيں كافر عدالتوں ميں گھسيٹا جانے كا باعث ہو تو پھر وہ والدين كو دعوت اسلام دينے كے معاملہ كو واضح اور ظاہر مت كريں بلكہ اس ميں حكمت سے كام ليں.

6 ـ سوال كرنے والى عورت كو چاہيے كہ وہ اپنى شادى خود مت كرے چاہے وہ كنوارى نہيں بھى ہے كيوكہ شريعت اسلاميہ اسے اس كى اجازت نہيں ديتى، اور اگر اس كا كوئى معتبر شرعى ولى نہيں ہے تو قاضى يا اس كا قائم مقام جو مسلمانوں كے معاملات كا ذمہ دار ہے ولى ہو گا، مثلا اسلامك سينٹر كا چئرمين، يا اس كا نائب.

7 ـ ان دونوں كو اپنى اس مشكلات ميں ـ اور خاص كر سائلہ بہن كو ـ اللہ تعالى سے مدد طلب كرنى چاہيے، اور ہر ايك كو يہ علم ہونا چاہيے كہ جو كوئى بھى اللہ سبحانہ و تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے تو اللہ تعالى اس كے معاملات ميں آسانى پيدا فرما ديتا ہے، اور اس كے ليے مشكل اور تنگى سے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، انہيں صدق و سچائى سے دعا كرنى چاہيے، اور بقدر استطاعت اپنے گھر والوں كو نصيحت كرنے كى كوشش كريں اور نئے مسلمانوں كے متعلق ان كى سوچ كو بدلنے كے ليے زندہ مثاليں پيش كريں جو ان كى سوچ اور قول كے برعكس ہوں.

سابقہ خاوند نے جو مشكل بنائى وہ بھى اسى طرح ہے، ہم اسے پھر يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ بچوں كو دين اسلام كى دعوت دينے كے معاملہ كو واضح مت كرے تا كہ يہ اس كے نتيجہ ميں ان كا والد كوئى ايسا كام نہ كرے جس كا انجام اچھا نہ ہو، اور اگر اس سے كسى بھى قسم كا شك پيدا ہو كہ وہ كوئى نقصان دينا چاہتا ہے تو فورا پوليس كو بتانے ميں كوئى حرج نہيں تا كہ وہ كاروائى كر سكے.

8 ـ اور اگر شادى كى بنا پر بچوں كى پرورش كا حق بيوى سے چھيننے كا باعث بنے تو پھر ہم اسے شادى كرنے كا مشورہ نہيں ديتے كہ كہيں وہ دونوں بچے جہنم كا ايندھن نہ بن جائيں، ليكن اگر اس عورت كو اپنے متعلق خدشہ ہو كہ وہ فحش كام كر بيٹھے گى تو پھر اس مسلمان شخص سے شادى كر سكتى ہے، اور اس ميں شادى كى شرعى شروط اور اركان يعنى ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں ايجاب و قبول كا ہونا ضرورى ہے، جيسا كہ اوپر بتايا جا چكا ہے.

اور پھر نكاح كا اعلان تو سنت ہے، اس ليے كے ليے سركارى طور پر اندراج اور اعلان كرنا لازم نہيں، ليكن اس بہن كو چاہيے كہ وہ ايك مسلمان معاشرہ ميں زندگى بسر كرے جو اپنے دينى امور كا محافظ ہو اور اس كى شادى كا علم ركھتے ہوں تا كہ اس كے متعلق باتيں نہ كى جائيں، اور اگر اس كى حالت بہتر ہو تو وہ اپنے سابقہ خاوند والے علاقے كو چھوڑ كر كسى دوسرے علاقے ميں چلى جائے جہاں وہ ازادى سے رہے اور اپنے بچوں كى پرورش كرے، اور كسى بھى موحد مسلمان شخص سے شادى كرنا ممكن ہے جو اس كے بچوں كى حفاظت كرے.

9 ـ اور پھر اس كے ليے سب سے بہتر تو اللہ كى طرف رجوع اور عاجزى سے دعا كرنا كہ اللہ اس كى مشكلات ميں آسانى پيدا كرے اور تنگى سے نكالے، ہم بھى اس كے ليے دعاگو ہيں كہ اللہ اسے اپنى پسند اور رضا والے كام كرنے كى توفيق سے نوازے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد