الحمد للہ.
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " المحلى بالآثار " ميں كہتے ہيں:
مسئلہ: ....
يہ جائز نہيں كہ عورت مرد كى امامت كروائے، اور نہ ہى زيادہ مردوں كى، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اور حديث ميں بھى آيا ہے كہ عورت اگر مرد كے آگے سے گزر جائے تو مرد كى نماز توڑ ديتى ہے، ہم اس كا ذكر اس كے بعد ان شاء اللہ اس كے باب ميں بيان كرينگے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " امام ڈھال ہے " اور اس كا حكم يہ ہے كہ وہ مرد كے پيچھے ہو اور خاص كر نماز ميں، اور امام كا مقتديوں سے آگےكھڑا ہونا ضرورى ہے، يا پھر مقتدى كے ساتھ ايك ہى صف ميں اس كا ذكر بھى ان شاء اللہ تعالى اپنى جگہ پر آئےگاـ ان نصوص سے عورت كا مرد كى امامت كرانا باطل ثابت ہوتا ہے، اور ايك سے زيادہ مردوں كى امامت كروانا تو يقينا باطل ہو گى.
ديكھيں: المحلى ابن حزم جلد دوم صلاۃ الجماعۃ.
اور على بن سليمان المرداوى حنبلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ: " ولا تصح امامۃ المراۃ للرجل "
اور عورت كا مرد كى امامت كروانا صحيح نہيں.
يہ مطلقا مذہب ہے.
ديكھيں: كتاب الانصاف جلد دوم باب صلاۃ الجماعۃ
واللہ اعلم .