اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بيوى كام كرنے كى رغب ركھتى ہے اور خاوند اسے منع كرتا ہے

تاریخ اشاعت : 23-09-2005

مشاہدات : 11194

سوال

ميرا خاوند نہ تو مجھے ملازمت كرنے ديتا ہے، اور نہ ہى تعليم، ميرا خيال ہے كہ ميرے پاس وقت بھى فارغ ہے اور ميں يہ كام كرنے كى قدرت بھى ركھتى ہوں، تو كيا خاوند كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ مجھے ملازمت كرنے يا تعليم حاصل كرنے سے منع كرے، وہ ميرى بات نہيں سنتا جس كى بنا پر ميں اذيت سے دوچار ہوتى ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خاوند اور بيوى دونوں پر واجب ہے كہ وہ اپنى ازدواجى زندگى كے سارے معاملات شريعت مطہرہ كے احكام كے مطابق بسر كريں، شريعت اسلاميہ نے جو حكم ديا ہے اس كى تنفيذ اور اسے تسليم كرنا واجب ہے، دنيا و آخرت ميں سعادت و راحت اور آرام كى يہى راہ ہے، جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور اگر تم كسى چيز ميں تنازع كرو تو اسے اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ انجام كے اعتبار سے بہتر اور اچھا ہے النساء ( 59 ).

بالخصوص عورت كى ملازمت اور گھر سے نكلنے كے متعلق ہم يہ كہيں گے كہ:

1 - اصل تو يہى ہے كہ عورت اپنے گھر ميں ہى رہے، اس كى دليل اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم اپنے گھروں ميں ٹكى رہو، اور قديم جاہليت كے زمانے كى طرح اپنے بناؤ سنگھار كا اظہار نہ كرو الاحزاب ( 33 ).

اگرچہ اس آيت ميں خطاب تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كو ہے، ليكن اس حكم ميں مومنوں كى عورتيں ان كے تابع ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كو خطاب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں ان كے شرف و مرتبہ كى بنا پر ہے، اور اس ليے بھى كہ وہ مومنوں كى عورتوں كے ليے نمونہ اور قدوہ ہيں.

اور اس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مندرجہ ذيل فرمان بھى دلالت كرتا ہے:

" عورت چھپى ہوئى چيز ہے، اور جب يہ نكلتى ہے تو شيطان اسے جھانكتا ہے، اور وہ اپنے گھر كى گہرائى ميں رہتے ہوئے اللہ تعالى كے زيادہ قريب ہے"

اسے ابن حبان اور ابن خزيمۃ نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2688 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور مساجد ميں عورتوں كى نماز كے متعلق نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اور ان كے گھر ان كے ليے زيادہ بہتر ہيں"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 567 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

2 - اگر مندرجہ ذيل اصول اور ضوابط پائے جائيں تو عورت كے ليے ملازمت اور پڑھانا جائز ہے:

- يہ كام اور ملازمت عورت كى طبيعت اور اس كى تكوين اور خلقت كے موافق ہو، مثلا طب، اور تيمار دارى، اور تدريس، اور سلائى كڑھائى وغيرہ.

- يہ كہ عورت كا كام صرف عورتوں كے متعلق ہى ہو، جس ميں مرد و عورت كا اختلاط نہ پايا جائے، لھذا عورت كے ليے مخلوط سكول جس ميں لڑكے اور لڑكياں اكٹھى تعليم حاصل كر رہے ہوں پڑھانا جائز نہيں ہے.

- عورت اپنے كام ميں شرعى پردے كا اہتمام كرے.

- اس كى ملازمت اور كام اسے بغير محرم سفر كرنے كى طرف نہ لے جاتا ہو.

- عورت كا كام كاج اور ملازمت كى طرف نكلتےہوئے كسى حرام كام كا ارتكاب نہ ہوتا ہو، مثلا ڈرائيور كے ساتھ خلوط، يا خوشبو لگانا جے اجنبى مرد سونگھيں.

- يہ كہ اس ملازمت اور كام ميں اپنے واجبات ميں سے كسى چيز كا ضياع نہ ہوتا ہو، مثلا گھر كى ديكھ بھال، اور اپنے خاوند اور اولاد كے كام وغيرہ كرنا.

3 - آپ نے ذكر كيا ہے كہ آپ ملازمت اور تدريس يا پڑھائى كي رغبت اور قدرت ركھتى ہيں، تو يہ ايك اچھى چيز ہے، شائد آپ اسے اللہ تعالى كى اطاعت ميں صرف كريں، وہ اس طرح كہ سابقہ اصولوں اور ضوابط كو سامنے ركھتے ہوئے اپنے گھر يا اسلامك سينٹر ميں آپ مسلمان لڑكيوں كو تعليم ديں، يا ايسا كام كريں جو آپ كو بھى اور آپ كے خاندان كو بھى فائد دے، مثلا سلائى كڑھائى وغيرہ كريں، جو آپ كے ليے فراغت اور اكتاہٹ كے احساس سے نكلنے كا باعث اور وسيلہ ہو گا.

اور اسى طرح آپ كے ليے يہ بھى ممكن ہے كہ آپ كسى اوپن اسلامى يونيورسٹى سے التحاق كرليں، جو آپ كو گھر بيٹھے تعليم حاصل كرنے كى سہولت دے، تا كہ آپ علم اور فقہ حاصل كر سكيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اس ميں اللہ تعالى كے ہاں قدر و منزلت اور اجروثواب بھى حاصل ہو.

كيونكہ شرعى علم حاصل كرنے والے طالب علم كے ليے فرشتے اپنے پر پھيلاتے ہيں، اور عالم دين كے ليے آسمان و زمين ميں پائى جانے والى ہر چيز دعاء استغفار كرتى ہے، حتى كہ پانى ميں رہنے والى مچھلياں بھى، جيسا كہ ترمذى كى حديث نمبر ( 2682 ) اور سنن ابو داود كى حديث نمبر ( 3641 ) اور سنن نسائى كى حديث نمبر ( 158 ) اور سنن ابن ماجۃ كى حديث نمبر ( 223 ) ميں بيان ہوا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور اللہ تعالى سے دعا كرتى رہيں كہ وہ آپ كو نيك اور صالح اولاد عطا فرمائے، كيونكہ اس اولاد كى تربيت عورت كے ليے تو فارغ رہنے كا وقت ہى نہيں چھوڑتى، اور عورت كو يہ سب كچھ كرنے ميں الحمد للہ اللہ تعالى كى طرف سے اجر عظيم عطا كيا جاتا ہے.

اور يہ ياد ركھيں كہ معصيت و نافرمانى كے علاوہ ہر كام ميں خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى واجب ہے، تو اس بنا پر اگر خاوند اپنى بيوى كو كہتا ہے كہ وہ ملازمت يا پڑھائى كے ليے نہ جائے تو بيوى كو اس كى بات تسليم كرنى واجب ہے، اور اسى ميں اس كى سعادت اور كاميابى بھى ہے.

ابن حبان رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں حديث نقل كى ہے كہ:

" جب عورت اپنى پانچوں نمازيں ادا كرے، اور رمضان كے روزے ركھے، اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت وفرمانبردارى كرے، تو اسے كہا جائے گا كہ تم جنت ميں جس دروازے سے بھى چاہو داخل ہو جاؤ"

اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 661 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور خاوند كو بھى يہ نہيں چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كے شعور اور احساسات كو اذيت دينے، اور اس كى رائے كو دبانے، اور اس كى رغبات سے محروم كرنے ميں اس حق كو استعمال كرتا پھرے، بلكہ اسے بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرنا چاہيے، اور اپنى بيوى سے مشاورت اور بات چيت كرنى چاہيے، اور بيوى كے ليے شرعى حكم بيان كرنا چاہيے، اور اس كے بدلے ايسے كام اور مواقع فراہم كرے جس سے اسے سعادت اور خوشى حاص ہو، اور اس كى قوت اور مہارت زيادہ ہو، اور اس كى رغبات بھى كچھ نہ كچھ پورى ہو سكيں.

ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب كو اپنے محبوب اور رضامندى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب